Please wait..

غزل

 
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
مری خموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرف آرزو کا 

مطلب: اقبال اس غزل کے مطلع میں کہتے ہیں کہ بظاہر میں خاموش ہوں اور میری یہ خاموشی ایک طرح سے آرزوؤں کے مقبرے کے مانند ہے تاہم زمانہ اس حقیقت سے جلد ہی آگاہ ہو گا جب میری شاعری یہاں ایک انقلاب برپا کر دے گی۔

 
جو موج دریا لگی یہ کہنے سفر سے قائم ہے شان میری
گہر یہ بولا صدف نشینی ہے مجھکو سامان آبرو کا 

مطلب: زندگی کا حقیقی مفہوم ہر شے کی ضرورت اور تجربے کے مطابق متعین ہوتا ہے۔ دریا کی موجوں کی شان و شوکت اگر ان کی روانی میں مضمر تو موتی سیپی میں بندہ رہ کر اپنی شناخت کا ضامن بنتا ہے۔

 
نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل وہ تربیت سے نہیں سنورتے 
ہوا نہ سرسبز رہ کے پانی میں عکس سرو کنار جو کا 

مطلؓب: کسی شے میں جو جوہر قابل ہی نہ ہو تو اس کی دیکھ بھال اور تربیت سے کچھ فرق نہیں پڑتا اس کی ایک مثال ندی کے کنارے ایستادہ سرو کی ہے جو اپنی فطرت کے مطابق نمی حاصل کر کے سرسبز و شاداب ہوتا ہے جب کہ اس کا عکس ہمہ وقت پانی میں موجود رہنے کے باوجود کسی قسم کی نشوونما کا متحمل نہیں ہوتا۔

 
کوئی دل ایسا نظر نہ آیا نہ جس میں خوابیدہ ہو تمنا 
الہی تیرا جہان کیا ہے نگار خانہ ہے آرزو کا 

مطلب: اس شعر میں رب ذوالجلال کو متوجہ کر کے کہتے ہیں کہ میں یہاں جس شخص کو بھی ملا ہوں اس کے دل میں خواہشات اور آرزوؤں کی ایک دنیا آباد ہے۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تیری یہ دنیا آرزوؤں اور خواہشات کا طلسم کدہ ہے۔

 
کھلا یہ مر کر کہ زندگی اپنی تھی طلسم ہوس سراپا 
جسے سمجھتے تھے جسم خاکی غبار تھا کوئے آرزو کا 

مطلب: بعد از ممات اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ زندگی سراسر ایک طلسم کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ حتیٰ کہ عمر بھر جس جسم کو مٹی سے بنا ہوا تصور کرتے رہے وہ بھی فی الواقع آرزو اور خواہشات کے گرد اور کچھ نہ تھا۔

 
اگر کوئی شے نہیں ہے پنہاں تو کیوں سراپا تلاش ہوں میں 
نگہ کو نظارے کی تمنا ہے دل کو سودا ہے جستجو کا 

مطلب: انسان ہمیشہ کسی ایسی شے کی تلاش میں ہی سرگرداں رہتا ہے جو کہ اس کی نظروں سے چھپی ہوتی ہے اس لیے کہ دل اس شے کا نظارہ کرنا چاہتا ہے اس لیے اس کی تلاش و جستجو رہتی ہے۔ بلاشک و شبہ یہ شعر تلاش حق کے حوالے سے کہا گیا ہے۔

 
چمن میں گلچیں سے غنچہ کہتا تھا اتنا بیدرد کیوں ہے انساں
تری نگاہوں میں ہے تبسم شکستہ ہونا مرے سبو کا 

مطلب: جب باغ میں پھول توڑنے والے نے شاخ سے غنچے کو تراش لیا تو وہ زبان حال سے گویا ہوا کہ مجھے اتنا بتا دے کہ جب میں کھل کر پھول بن جاتا ہوں تو تو اسے میرے تبسم سے تعبیر کرتی ہے جب کہ یہ عمل تو فنا کی جانب ایک قدم ہے۔

 
ریاض ہستی کے ذرے ذرے سے ہے محؓبت کا جلوہ پیدا
حقیقت گل کو تو جو سمجھے تو یہ بھی پیماں ہے رنگ و بو کا 

مطلب: زندگی اگر باغ تصور کر لیا جائے تو اس باغ کے ہر ذرے سے محبت ہی محبت کا جلوہ نظر آتا ہے۔ اے انسان تو پھول کی حقیقت سے آگاہی حاصل کر کہ اس کی اہمیت اس وقت تک یہی ہے کہ اس میں رنگ و بو کا امتزاج برقرار ہے۔

 
تمام مضموں مرے پرانے کلام میرا خطا سراپا 
ہنر کوئی دیکھتا ہے مجھ میں تو عیب ہے میرے عیب جو کا 

مطلب: اپنے نقادوں پر غالباً طنز کرتے ہوءے اقبال کہتے ہیں کہ بے شک میری منظومات کے تمام مضامین قدامت سے ہم آہنگ ہیں اور میری شاعری بھی اغلاط سے پر ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی نقاد کے لیے اس میں کوئی خوبی ہے تو یہ اس نقاد کی کم علمی کا ثبوت ہے۔

 
کمال وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھیڑے 
یقیں ہے مجھکو گرے رگ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا

مطلب: کاءنات میں موجود عناصر ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ اگر نوک نشتر سے پھول کو چھیڑا جائے تو نتیجہ میں اس سے جو لعاب برآمد ہو گا وہ انسانی خون کے مانند ہو گا۔

 
کیا ہے تقلید کا زمانہ مجاز رخت سفر اٹھائے 
ہوءی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا 

مطلب: اب نقالی اور دوسروں کی پیروی کرنے کا دور ختم ہوا اب خیالی دنیا پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ دور تو حقیقت پر مبنی ہے اور جب انسان کو حقیقت کا ادراک ہو جائے تو پھر اس پر کسی قسم کی انگشت نمائی نہیں کی جا سکتی۔

 
جو گھر سے اقبال دور ہوں میں تو ہوں نہ محزوں عزیز میرے 
مثال گوہر وطن کی فرقت کمال ہے میری آبرو کا

مطلب: اگر میں اپنے وطن سے دور ہوں یعنی بغرض تعلیم انگلستان میں ہوں تو میرے احباب اور عزیز و اقارب کو غمگین نہیں ہونا چاہیے کہ موتی کی قدروقیمت سیپی سے باہر نکل کر ہی معلوم ہوتی ہے۔ دیار غیر میں حصول تعلیم کے بعد میری عزت و توقیر میں بھی اضافہ ہو گا۔