(27)
تو اے اسیرِ مکاں ! لامکاں سے دور نہیں وہ جلوہ گاہ ترے خاکداں سے دور نہیں
معانی: خاکداں : زمین ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال انسان کی محدود سوچ کے حوالے سے بات کرتے ہیں کہ اگر وہ دوررس نگاہ کا حامل ہو تو اس کی رسائی لامکاں تک بھی ممکن ہے ۔ لامکاں جو نور مطلق کی خصوصی جلوہ گاہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ انسان میں یہ صلاحیت موجود ہے تو اسے اس امر کی معرفت ہو سکتی ہے کہ نور مطلق کی خصوصی جلوہ گاہ ز میں سے زیادہ نہیں ہے ۔
وہ مرغزار کہ بیمِ خزاں نہیں جس میں غمیں نہ ہو کہ ترے آشیاں سے دور نہیں
معانی: مرغزار: چراگاہ ۔
مطلب: پہلے شعر کے موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ نور مطلق کی خصوصی جلوہ گاہ تو ہمیشہ پر بہار رہتی ہے ۔ اسے خزاں سے دور کا بھی واسطہ نہیں اس لیے تجھے رنجور ہونے کی ضرورت نہیں کہ یہ تیری دسترس سے بڑی حد تک نزدیک ہے ۔ اس تک رسائی حاصل کرنے کی صلاحیت تو اے انسان تجھ میں پیدا ہونی چاہیے ۔
یہ ہے خلاصہَ علمِ قلندری، کہ حیات خدنگِ جستہ ہے لیکن کماں سے دور نہیں
خدنگ جستہ: چلا ہوا تیر ۔
مطلب: معاملہ صرف اسی قدر ہے کہ اقبال کے مطابق قلندری کا جو فلسفہ ہے اس کے مطابق کائنات کا تعلق ہر صورت میں نور مطلق کے سرچشمہ سے ضرور رہتا ہے ۔ بالکل اسی طرح کہ جس طرح کمان سے نکلے ہوئے تیر کا رابطہ کسی نہ کسی طور پر کمان سے برقرار رہتا ہے ۔ یعنی یہ کہنا کافی نہیں کہ جو تیر کمان سے برآمد ہوئے اس کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ تیر مخصوص کمان نے پھینکا ہے ۔ اس مسئلے کو انسان کی تخلیق اور خدائے عزوجل کے حوالے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہر صورت میں انسان کا کچھ نہ کچھ ربط خالق مطلق سے لازمی ہوتا ہے
فضا تری مہ و پرویں سے ہے ذرا آگے قدم اٹھا یہ مقام آسماں سے دور نہیں
مطلب: تیرا مقام اور تیری منزل اے انسان! بے شک چاند اور ستاروں سے آگے کچھ فاصلے پر واقع ہے ۔ مسلسل عمل اور جدوجہد سے آگے قدم بڑھایا جائے تو یہ مقام آسمان سے زیادہ دوری پر واقع نہیں ہے اس لیے کہ چاند اور ستارے تو خود آسمان کو آراستہ کرتے ہیں ۔
کہے نہ راہنما سے کہ چھوڑ دے مجھ کو یہ بات راہروِ نکتہ داں سے دور نہیں
مطلب: رہرو: مسافر ۔ نکتہ داں : رمز سمجھنے والا ۔
مطلب: ایسی صورت حال میں جو رہنمائی کرنے والا منزل کی جانب لے جانے والی صلاحیتوں سے محروم ہو اور یوں منزل کے گم ہو جانے کا اندیشہ ہو تو وہ رہرو جو عقل و دانش اور صورت حال کا مکمل ادراک رکھتا ہے وہ ایسے رہنما سے یقینا منحرف ہو جائے گا ۔ مراد یہ ہے کہ دنیا میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو مذکورہ قسم کے رہنماؤں کی بھی اندھی تقلید پر آمادہ رہتے ہیں وہ جو صحیح یا غلط بات کہے اس کو تسلیم کر لیتے ہیں لیکن وہ لو گ جو حقیقت سے بہرہ ور ہیں ایسے رہنماؤں سے اجتناب کرتے ہیں ۔