Please wait..

(15)

 
خودی کی شوخی و تُندی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذتِ نیاز نہیں

معانی: کبر و ناز: تکبر اور فخر کرنا ۔ لذتِ نیاز: عاجزی کا مزا ۔
مطلب: جس انسان کا ضمیر خودی کے جذبے سے مخمور ہوتا ہے اس میں نہ غرور ہوتا ہے نا ہی وہ اپنی ذات پر فخر کرتا ہے ۔ بالفرض کسی مرحلے پر فخر بھی عود کر آئے تو اس میں ابھی عملاً نیاز مندی کا پہلو شامل ہو گا ۔ اس شعر کو آسان اور سہل الفاظ میں یوں بیان کی جا سکتا ہے کہ جن لوگوں میں سچائی کو راہ دکھانے کی اہلیت ہوتی ہے وہ کسی مرحلے پر بھی کبر و غرور سے بالاتر رکھتے ہوئے ہمیشہ نیازمندی اور انکساری سے کام لیتے ہیں ۔ یہی عمل ان کی عظمت کی دلیل بن جاتا ہے ۔

 
نگاہِ عشق، دلِ زندہ کی تلاش میں ہے
شکارِ مردہ، سزاوارِ شاہباز نہیں

معانی: سزاوار شاہباز: باز کے لائق نہیں ۔
مطلب: عشق حقیقی تو ہمیشہ زندہ دل لوگوں کا وطیرہ ہوتا ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے شہباز مردہ جانور پر چھپٹنے کی بجائے محو پرواز پرندے کا شکار کرتا ہے ۔

 
مری نوا میں نہیں ہے ادائے محبوبی
کہ بانگِ صورِ سرافیل دل نواز نہیں

معانی: محبوبی: دلکشی ۔ دل نواز: دل لبھانے والی ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال صورِ اسرافیل کے حوالے سے اپنے نغمے گری کے ضمن میں ایک اہم بات کہتے ہیں کہ قیامت کے روز جس طرح حضرت اسرافیل کے صور پھونکنے سے تمام مردے اس خوفناک آواز پر زندہ ہو اٹھیں گے ۔ اسی طرح میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے اشعار کی لے بھی تلخ نوائی کی حامل ہے کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے ۔

 
سوالِ مے نہ کروں ساقیِ فرنگ سے میں
کہ یہ طریقہَ رندانِ پاکباز نہیں

معانی:سوالِ مے: شراب مانگنا ۔ رندانِ پاکباز: پاکیزہ شراب پینے والے ۔
مطلب: فرماتے ہیں کہ یورپی استعمار پرستوں سے میں کسی قسم کی بھیک کا طلبگار نہیں ہو سکتا کہ اہل حق اور آزاد لوگوں کے لیے کسی کے روبرو بھی دست سوال کرنا ان لوگوں کے اصولوں کے منافی ہے جو آزادی پر کامل یقین رکھتے ہیں اور موت کو غیروں کی غلامی پر ترجیح دیتے ہیں ۔

 
ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومتِ عشق
سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں

مطلب: اقبال کے بقول عشق حقیقی کا جذبہ ہر دل میں راہ نہیں پا سکتا کہ اس کا زمانہ سازی اور منافقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ عشق حقیقی تو صرف انھی دلوں میں موجزن ہوتا ہے جو اس کی لطافت اور پاکبازی کا شعور رکھتے ہیں اور دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد انتہائی محدود ہے ۔

 
اک اضطرابِ مسلسل غیاب ہو کہ حضور
میں خود کہوں تو مری داستاں دراز نہیں

مطلب: غیاب: غائب ۔ حضور: سامنے موجود ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال ان لوگوں کے حوالے سے خود پر طاری ہونے اور مسلسل اضطراب و بے قراری کا ذکر کرتے ہیں کہ دنیا والے اس مسئلے پر کتنی ہی مبالغہ آرائی کریں ۔ میرا معاملہ تو بس محبوب کی جدائی یا پھر وصال تک محدود ہے ۔

 
اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبورِ عجم
فغانِ نیم شبی بے نوائے راز نہیں

معانی: زبورِ عجم: اقبال کی فارسی غزلوں کا مجموعہ ۔ فغانِ نیم شبی: آدھی رات کو اٹھ کر اللہ سے دعائیں کرنا ۔
مطلب: اگر کسی میں ذوق مطالعہ اور حقیقت کو پانے کی تڑپ موجود ہے تو پھر شب کی پرسکون تنہائی میں میرے شعری مجموعے زبور عجم کا مطالعہ کرے کہ اس کے اشعار میں ایسی فریاد پوشیدہ ہے جو انسان خلوص دل کے ساتھ نصف شب کے بعد ہی خدائے پا ک کے روبرو کرتا ہے ۔ ایسی فریاد رازہائے درون پردہ کی ا میں ہوتی ہے ۔