خوب و زشت
ستارگانِ فضا ہائے نیلگوں کی طرح تخیلات بھی ہیں تابعِ طلوع و غروب
معانی: ستارگانِ فضا ہائے نیلگوں : نیلے آسمان کی فضا کے ستارے ۔ تخیلات: خیالات ۔ تابع طلوع غروب: نکلنے اور چھپنے کے ماتحت ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال نے انسان کے خیالات کی بات کی ہے اور کہا ہے کہ جس طرح نیلے آسمان کی فضاؤں میں ستارے کبھی نکلتے ہیں اور ڈوبتے رہتے ہیں ۔ خیالات بھی ستاروں کی مانند یعنی کبھی ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی چھپ جاتے ہیں ۔
جہانِ خودی کا بھی ہے صاحبِ فراز و نشیب یہاں بھی معرکہ آرا ہے خوب سے ناخوب
معانی: صاحبِ فراز و نشیب: بلندی اور پستی کا مالک ۔ معرکہ آرا: جنگ یا تصادم میں مصروف ۔ خوب: اچھائی ۔ ناخوب: برائی ۔
مطلب: جس طرح ہماری خارجی دنیا میں بلندی اور پستی دونوں موجود ہیں اور ان میں تصادم رہتا ہے ۔ کبھی خوبی برائی اور کبھی برائی خوبی پر فتح یاب ہوتی ہے ۔ اسی طرح ہماری داخلی دنیا یعنی خودی کی دنیا میں بھی اچھائی اور برائی میں جنگ برپا رہتی ہے اور دونوں ایک دوسرے پر فتح یاب ہونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔
نمود جس کی فرازِ خودی سے ہو، وہ جمیل جو ہو نشیب میں پیدا، قبیح و نامحبوب
معانی: نمود: ظہور ۔ فراز خودی: خودی کی بلندی ۔ جمیل: حسین ۔ نشیب: پستی ۔ قبیح : بری ۔ نامحبوب: غیر پسندیدہ ۔
مطلب: پہلے دو شعروں میں اقبال نے انسانی خیالات کی طرح انسانی خودی (خود شناسی) کے بلند اور پست یا اچھے اور برے ہونے کی جو بات کی ہے تیسرے شعر میں اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے اقبال یہ کہتا ہے کہ جس خیال کی اور جس چیز کا خودی کی بلندی سے ظہور ہو وہ خیال اور وہ شے حسین ہے اور جو خیال اور جو شے خودی کی پستی سے وجود میں آئے وہ بات، وہ خیال اور وہ شے بری بھی ہے اور ناپسندیدہ بھی ہے