Please wait..

دین و سیاست

 
کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی
سماتی کہاں اس فقیری میں میری

معانی: رہبانیت: دنیا ترک کرنا ۔
مطلب: علامہ اقبال نے اس نظم میں یہ وضاحت کی ہے کہ اسلام نے سیاست اور دین کو مربوط کیا ہے جب کہ عیسائیت مذہب اور سیاست کے مابین جو ربط ہونا چاہیے اس کو ختم کر دیا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ خامی تھی کی کلیسا نے اپنے عقائد کی بنیاد ترک دنیا پر رکھی ۔ مقصود یہ تھا کہ دنیاداری اور اس کے جملہ معاملات کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھا جائے ۔ اس صورت حال میں دین اور سیاست کی یکجائی کے امکانات کا عمل دخل کس طرح سے ہو سکتا تھا ۔

 
خصومت تھی سلطانی و راہبی میں
کہ وہ سربلندی ہے یہ سربزیری

معانی: سربزیری: عاجزی ۔
مطلب: بادشاہی اور رہبانیت کے مابین تو ازل سے شدید اختلافات چلے آ رہے ہیں اس لیے کہ حاکمیت کا تصور تو انسان کی بلند مرتبت کا حامل ہے جب کہ ترک دنیا کا معاملہ انسان کو پستی کی طرف دیکھنے والا اور غیر فطری ہے ۔

 
سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا
چلی کچھ نہ پیرِ کلیسا کی پیری

معانی: پیرِ کلیسا: پادری ۔
مطلب: یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب مذہب سے سیاست نے اپنا پیچھا چھڑا لیا اور یوں دونوں کے مابین جو رابطہ تھا ختم ہو گیا اس کے باوجود پادریوں کی اجارہ داری بھی ایک طرح سے ختم ہو کر رہ گئی ۔

 
ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی
ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری

معانی: ہوس: لالچ ۔
مطلب : جب دین و سیاست کے مابین جو رشتہ تھا وہ ٹوٹ گیا تو سربراہ مملکت اور ان کے وزیر مشیر بے شک برسر اقتدار تو رہے تا ہم محض حرص و ہوس کے بندے بن کر رہ گئے ۔ اس لیے کہ اخلاقی اقدار کا تصور ہی ختم ہو گیا تو بات آگے کیسے چلتی ۔

 
دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی
دوئی چشمِ تہذیب کی نابصیری

معانی: نامرادی: بے نصیبی ۔ دوئی: علیحدگی، غیریت ۔ نابصیری: اندھا پن ۔
مطلب: دین اور سیاست کے ایک دوسرے سے علیحدگی کے باعث ان پر نا آسودگی نے ڈیرہ ڈال لیا ۔ اور دو رخ اور متضاد رویے کے سبب تہذیب اور کلچر بے بصر ہو کر رہ گئے ۔ ان دونوں میں نیکی اور بدی کا تصور بے معنی ہو کر رہ گیا ۔ پھر معاملے یہاں اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ سارا نظام معاشرت درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے ۔

 
یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا
بشیری ہے آئینہ دارِ نذیری

مطلب: متذکرہ انتشار کا یہ ردعمل تھا کہ پیغمبر انقلاب حضور سرور کائنات نے مبعوث ہونے کے ساتھ جہاں دعوت اسلام دی اور وہاں معاشرے میں بھی انقلابی تبدیلیاں لانے کے لیے دین اور سیاست کو یکجا کر دیا اور دینی احکام کو ہی حکمرانی کا منشور قرار دیا ۔ اس کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ حاکم وقت پر بھی لازم ہے کہ وہ فرمان الہٰی کی ہر قیمت پر تعمیل کرے اور دوسروں کو بھی ان کی مکمل اطاعت پر آمادہ کرے ۔ اس کا منطقی نتیجہ اس صورت میں نمودار ہوا کہ حاکم اور عام لوگ فطری طور پر ایک احتسابی عمل کے زیر اہتمام زندگی بسر کرنے لگے اور یوں خود بخود برائی سے دور ہوتے چلے گئے ۔

 
اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
کہ ہوں ایک جنیدی و اردشیری

مطلب: حضور نے احکام خداوندی کی روشنی میں یہ بات واضح کر دی کہ دین اور سیاست کو یکجا کئے بغیر انسانی معاشرے اور انسانیت کا تحفظ ممکن نہیں ۔ کسی بھی معاشرے بالخصوص اسلامی معاشرے میں یہ امر ناگزیر ہے کہ ہر دو بنیادی معاملات کے مابین ربط رہے ۔ اسی صورت میں انقلاب کی تکمیل ممکن ہے ۔