Please wait..

جگنو

 
جگنو کی روشنی ہے کاشانہَ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں 

معانی: جگنو: رات کو اڑنے والا کیڑا جس میں روشنی نکلتی ہے ۔ کاشانہ: گھر ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال نے جگنو کے وجود کو خوبصورت امیجز کے حوالوں سے جس مقام پر پہنچا دیا اس کا اندازہ نظم پڑھنے سے ہی ممکن ہے ۔ فرماتے ہیں جب کسی باغ میں جگنو اپنی روشنی سمیت محو پرواز ہوتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پھولوں کی بزم سجی ہوئی ہے اور اس میں جگنو کا وجود ایک روشن شمع کی مانند ہے ۔

 
آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ
یا جان پڑی گئی ہے مہتاب کی کرن میں

معانی: مہتاب: چاند ۔
مطلب: لگتا ہے کہ یا تو آسمان سے اڑ کر کوئی ستارہ یہاں پہنچا ہے یا چاند کی کوئی کرن جگمگا رہی ہے ۔

 
یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا
غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں

معانی: سفیر: کسی ملک کا ایلچی ۔ غربت: پردیس ۔
مطلب: یا کہ جس طرح سے دن کا کوئی سفیر رات کی سلطنت میں وارد ہوا ہے ۔ ہر چند کہ اپنے وطن میں اس کی کوئی حیثیت نہ تھی لیکن یہاں پہنچ کر اس کی شخصیت چمک اٹھی ہے ۔ اس شعر سے مراد یہ ہے کہ دن کے وقت جگنو کے پروں کی روشنی اپنے وجود کا احساس نہیں کرپاتی جب کہ رات کی تاریکی میں یہ اسے فروزاں کرنے میں مدد دیتی ہے ۔

 
تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں

معانی: تکمہ: بٹن ۔ پیرہن: لباس، قمیص ۔
مطلب: شب کے لمحات میں چمکتے ہوئے جگنو کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ چاند نے اگر قبا پہنی ہوئی ہے تو اس کا کوئی بٹن ٹوٹ کر گر پڑا ہے ۔ یا سورج نے اگر کوئی لباس پہنا ہوا ہے اس پر پڑا ہوا کوئی ذرہ چمک رہا ہے ۔

 
حُسنِ قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی
لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں

معانی: حسنِ قدیم: مراد قدرت کا حسن جو ازل سے ہے ۔ جھلک: چمک ۔
مطلب: دراصل یہ محض ایک ننھا سا کیڑا نہیں بلکہ یہ تو حسن قدیم کی ایک ایسی جھلک کے مانند ہے جسے قدرت تنہائی سے نکال کر کسی انجمن میں لے آئی ہو ۔

 
چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی
نکلا کبھی گہن سے، آیا کبھی گہن میں

معانی: ظلمت: تاریکی، اندھیرا ۔ گہن: گرہن، وہ دھبا جو کسی خاص وقت میں چاند یا سور ج کو لگتا ہے ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ یہ جگنو تو ایک چھوٹے سے چاند کی مانند ہے جس میں تاریکی بھی ہے اور روشنی بھی ۔ ایسا چاند جو اسی سبب کبھی گہن سے باہرنکل آتا ہے اور کبھی گہن میں چھپ جاتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ جب جگنو محو پرواز ہوتا ہے تو اس کے ننھے ننھے پروں سے لمحے بھر کو روشنی برآمد ہوتی ہے اور لمحے بھر کے لیے تاریکی پھیل جاتی ہے ۔

 
پروانہ اک پتنگا، جگنو بھی اک پتنگا
وہ روشنی کا طالب، یہ روشنی سراپا

معانی: طالب: مانگنے والا ۔ سراپا: پورے طور پر ۔
مطلب: ہر چند کہ پروانہ بھی ایک کیڑا ہے اور جگنو بھی ایک حقیر سا کیڑا ہے لیکن صورت یہ ہے کہ پروانے کو تو روشنی کی طلب ہوتی ہے جب کہ جگنو سراپا روشنی ہے ۔

 
ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
پروانہ کو تپش دی، جگنو کو روشنی دی

معانی: دلبری: پیارا ہونا ۔ تپش: تڑپ ۔
مطلب: پروانے اور جگنو کے وجود کے حوالے سے مختلف اشیاء کا موازنہ کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ امر واقع یہ ہے کہ قدرت نے دنیا میں ہر شے کو کوئی نہ کوئی خصوصیت عطا کی ہے ۔ فرق بس اتنا ہے کہ پروانے کو حرارت بخشی گئی ہے اور جگنو کو روشنی سے نوازا گیا ہے ۔

 
رنگیں نوا بنایا، مرغانِ بے زباں کو
گل کو زبان دے کر تعلیمِ خامشی دی

معانی: رنگیں نوا: مراد دل کو بھانے والی آواز ۔ مرغان: جمع مرغ، پرندے ۔ گل: پھول ۔ پتی جو زبان سے ملتی جلتی ہے ۔
مطلب: اس طرح بعض بے زبان پرندوں کو دل موہ لینے والے انداز میں نغمگی کا عمل سکھایا اس کے برعکس پھولوں کو پتیوں کی شکل میں زبان عطا کر کے خاموش رہنے کی تعلیم فرمائی ۔

 
نظارہَ شفق کی خوبی زوال میں تھی
چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی

معانی: شفق: وہ سرخی جو صبح و شام کے وقت آسمان پر نظر آتی ہے ۔ زوال: اُتار، دن کا ڈھلنا ۔ پری: مراد تشخص ۔
مطلب: اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ شفق کا نظارہ ہمیں یوں اچھا لگتا ہے کہ اس کی مدت محض چند لمحات تک محدود ہے اور اس کی جو مختصر زندگی ہے وہی اس کا حسن ہے ۔

 
رنگیں کیا سحر کو بانکی دلھن کی صورت
پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی

معانی: سحر: صبح ۔ بانکی: مراد خوبصورت ۔ رنگیں کرنا: رنگ دار بنانا ۔ آرسی: آئینہ ۔
مطلب: پھر سحر کے لمحات کو بھی اتنا خوبصورت پیراہن عطا کیا کہ اسے ایک دلہن سے تشبیہ دی جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ طلوع سحر کا منظر سرخی لیے ہوئے ہوتا ہے اسی لیے اگر اس کو دلہن کے سرخ جوڑے سے تعبیر کیا جائے تو مناسب ہو گا اور اس لباس پر شبنم کے قطرے کو آرسی تصور کر لیا گیا ہے ۔

 
سایہ دیا شجر کو پرواز دی ہوا کو
پانی کو دی روانی، موجوں کو بے کلی دی

معانی: شجر: درخت ۔ روانی: بہنا ۔ بے کلی: بے چینی
مطلب: یہی نہیں قدرت نے درختوں کو سایہ عطا کیا اور ہوا کو فضا میں اڑنا سکھایا جب کہ پانی کوروانی بخشی اور موجوں کو اضطراب و تڑپ سے نوازا ۔

 
یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری
جگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری

معانی: امتیاز: فرق ۔
مطلب: ان سب حقائق کے باوجود اس امتیاز میں ایک خصوصی بات بھی ہے کہ جگنو کے لیے وہی وقت دن کی حیثیت رکھتا ہے جس کو ہم انسان رات سمجھتے ہیں ۔

 
حُسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے

معانی: حسن ازل: قدرت کا حسن ۔ پیدا: ظاہر ۔ سخن: بات کرنا ۔ غنچہ: کلی ۔ چٹک: کھلنا ۔
مطلب: مختلف اشیاء کی جو امتیازی خصوصیات بیان کی گئی ہیں ان پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو اس امر کا اندازہ لگانے میں کوئی قباحت نہیں ہو گی کہ یہ اشیاء عملاً رب کائنات کے حسن کی کرشمہ سازی ہیں ۔ فرق بس اسی قدر ہے کہ انسان کو بولنا سکھایا اور غنچے کو چٹکنا ۔

 
یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے

معانی: واں : وہاں ۔ کسک: ٹیس، درد ۔
مطلب: اسی طرح چاند اور شاعر کے دل میں بھی کوئی نمایاں فرق نہیں کہ چاند کی روشنی اور شاعر کے دل کی کسک عملاً ایک ہی چیز ہے ۔

 
اندازِ گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوئے بلبل، بو پھول کی چہک ہے

معانی انداز گفتگو: بات کرنے کا طریقہ ۔ نغمہ: ترانہ، مراد چہچہانا ۔ چہک: پرندے کا چہچہانا ۔
مطلب: یہ تو محض ایسا دھوکا ہے جو گفتگو کے انداز سے پیدا ہوا ۔ اس ضمن میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مختلف اشیاء کے جو مطالب و معانی وضع کر لیے گئے ہیں وہی عام انسان کو غلط فہمی میں مبتلا کرتے ہیں ۔ بصورت دیگر نغمہ جو ہے وہ عملاً بلبل کی خوشبو ہے اور خوشبو پھول کی چہک سے مشابہ ہے ۔ گویا بلبل کے نغمے کی وہی حیثیت ہے جو پھول کی خوشبو کی ہے ۔

 
کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے، وہ پھول میں مہک ہے

معانی: چہک: کثرت: بہت تعداد میں ہونا ۔
مطلب: یہ نظم بغور دیکھا جائے تو وحدت الوجود کے فلسفے کی وہی حیثیت بنتی ہے جو آخری دو اشعار میں تو بالکل واضح ہو کر سامنے آ گیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ رب کائنات کی ذات اور اس کا راز بیک وقت مختلف اشیا میں ظاہر ہو کر عام نظروں سے چھپ گیا ہے ورنہ بغور دیکھا جائے تو جو حقیقت جگنو میں چمک اور روشنی بن کر نمایاں ہوتی ہے وہی حقیقت پھول کی خوشبو سے بھی ظاہر ہوتی ہے ۔

 
یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو
ہر شے میں جب کہ پنہاں خاموشیِ ازل ہو

معانی: خاموشیِ ازل: مراد قدرت کا وجود جو بولتا نہیں ۔
مطلب: چنانچہ اس حوالے سے جب ہر شے میں رب ذوالجلال کا نور اور اس کا حسن چھپا ہوا ہے تو پھر اختلاف و افتراق میں پڑ کر نئے جھگڑے کس لیے پیدا کئے جائیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے مختلف اشیاء کے تقابلی کرداروں کے حوالے سے ایک بڑے مسئلے کا حل پیش کیا ہے ۔