ایک پرندہ اور جگنو
سرِ شام ایک مرغِ نغمہ پیرا کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا
سرِ شام: شام کے وقت ۔ نغمہ پیرا: مراد چہچہانے والا ۔
مطلب: ایک پرندہ شام کے وقت کسی درخت پر بیٹھا ہوا چہچہا رہا تھا ۔
چمکتی چیز اک دیکھی ز میں پر اُڑا طائر اسے جگنو سمجھ کر
مطلب: کہ اس کی نظر زمین کی طرف گئی جہاں اس نے کسی چمکتی ہوئی چیز کو دیکھا ۔ پرندے کو یقین تھا کہ یہ چمک جگنو کی ہی ہو سکتی ہے چنانچہ درخت سے اڑ کر وہ اس مقام کی جانب آیا کہ جگنو کو ہڑپ کر جائے ۔
کہا جگنو نے او مرغِ نوا ریز نہ کر بے کس پہ منقارِ ہوس تیز
معانی: مرغِ نوا ریز: چہچہانے والا پرندہ ۔ بیکس: جس کا کوئی نہ ہو ۔ منقارِ ہوس: لالچ کی چونچ ۔ تیز کرنا: مراد چونچ مارنا ۔
مطلب: اس لمحے جگنو نے پرندے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تو بے شک ایسا پرندہ ہے جو اپنے نغموں سے چمن میں بہار کا سا سماں پیدا کرتا ہے لیکن کسی کمزور اور ناتواں جگنو پر یوں چھپنٹنا تیرا شعار نہیں ہونا چاہیے ۔
تجھے جس نے چہک، گل کو مہک دی اسی اللہ نے مجھ کو چمک دی
معانی: چہک: چہچہانے کی حالت ۔
مطلب: اے پرندے! میری بات غور سے سن کہ جس خدا نے تجھے چہکنا سکھایا اور پھولوں کو مہک دی اسی خدا نے مجھے بھی روشنی عطا کی ہے ۔
لباسِ نور میں مستور ہوں میں پتنگوں کے جہاں کا طُور ہوں میں
معانی: پتنگوں : پتنگا کی جمع، شمع پر جلنے والے کیڑے ۔ طور: وہ پہاڑ جہاں حضرت موسیٰ کو خدا کا جلوہ نظر آیا تھا ۔
مطلب: میرا لباس تو نور ہی نور ہے یعنی قدرت خداوندی سے میرا جسم سرتا پا روشنی سے مزین ہے ۔ اور عملاً دنیا میں جو کیڑے مکوڑے ہیں ان میں میں کوہ طور کی حیثیت کا حامل ہوں ۔
چہک تیری بہشتِ گوش اگر ہے چمک میری بھی فردوسِ نظر ہے
معانی: تیری چہک اور نغمے اگر دل موہ لینے والے ہیں تو میری چمک بھی نگاہوں کو بھلی لگتی ہے ۔
پروں کو میرے قدرت نے ضیا دی تجھے اس نے صدائے دلربا دی
معانی: ضیا: روشنی ۔ صدائے دلبربا: دل کو لبھانے والی آواز ۔
مطلب: قدرت نے میرے پروں میں روشنی کے دیے جلا دیئے ہیں اسی طرح تجھے بھی اس مالک دو جہاں نے دل آویز نغمگی عطا کی ہے ۔
تری منقار کو گانا سکھایا مجھے گلزار کی مشعل بنایا
معانی: گلزار: باغ، چمن ۔ مشعل: چراغ دان ۔
مطلب: چنانچہ اگر تجھے گانا سکھایا ہے تو اس حقیقت کو بھی جان لے کہ میرا وجود اس گلزار میں ایک مشعل کی مانند ہے ۔
چمک بخشی مجھے، آواز تجھ کو دیا ہے سوز مجھ کو، ساز تجھ کو
مطلب: اے پرندے! اس رب ذوالجلال نے اگر مجھے روشنی بخشی ہے تو تجھے بے شک خوش الحانی عطا کی ہے ۔ بالفاظ دگر مجھے غم میں جلنا مقدر کیا ہے اور تجھے نغمگی سے نوازا ہے ۔
مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز جہاں میں ساز کا ہے ہم نشیں سوز
مطلب: اس حقیقت کو بھی جان لے کہ اگر میں سوز ہوں اور تیری حیثیت ساز کے مانند ہے تو سوز اور ساز دونوں ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہوتے کہ یہ دونوں عناصر تو اس کائنات میں ازل سے ہم آہنگ رہے ہیں ۔
قیامِ بزمِ ہستی ہے انھی سے ظہورِ اوج و پستی ہے انھی سے
معانی: بزمِ ہستی: مراد کائنات ۔ اوج: بلندی ۔
مطلب: اے پرندے! یہ نکتہ بھی ذہن نشین کر لے کہ سوز اور ساز یعنی درد اور نغمگی دونوں ہی ایسے عناصر ہیں جن سے زندگی کا وجود قائم و دائم ہے ۔ اور انہی سے انسان کے مراتب میں عروج و زوال کا اندازہ ہوتا ہے ۔
ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی
معانی: ہم آہنگی: ہم خیال ہونے کی کیفیت ۔ بوستاں : باغ، چمن ۔
مطلب: لہذا اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ باہمی اتحاد و اتفاق کے طفیل ہی یہ دنیا قائم ہے اور انہی کے سبب یہاں رونق رہتی ہے ۔ سو تجھے اگر اپنی زندگی عزیز ہے تو مجھے بھی جینے دے اسی میں دونوں کا بھلا ہے ۔