دُعا
یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے
معانی:: دعا: اللہ کے حضور التجا، درخواست ۔ زندہ تمنا: عمل پر آمادہ رکھنے والی آرزو ۔ قلب کو گرما نا: دل میں جوش و ولولہ پیدا کرنا ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال بارگاہ الہٰی میں یوں دعا گو ہیں کہ اے مالک جہاں ! مسلمانوں کے دلوں میں ایسی بیدار تمنائیں پیدا کر جو ہر قلب کو مضطرب کردے اور ان کی روح کو تڑپا کر رکھ دے ۔
پھر وادیِ فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے
معانی:: وادیِ فاراں : وہ وادی جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا تھا، فاراں مکہ کی ایک پہاڑی یعنی خانہ کعبہ ۔ شوقِ تماشا: دیکھنے یعنی اسلام کی تجلیوں کو دیکھنے کی خواہش ۔ ذوقِ تقاضا: خدائی جلووں کی طلب، خواہش جس طرح حضرت موسیٰ نے خدا سے اس کا تقاضا کیا تھا ۔
مطلب: اے مولا! ایک بار پھر حرم کعبہ کے ایک ایک ذرے کو منور کر دے اور مسلمانوں کے دلوں میں وہ شوق پیدا کر دے جو اس روشنی کو اپنے اندر جذب کرنے کا سبب بن سکے ۔
محرومِ تماشا کو پھر دیدہَ بینا دے دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے
معانی:: محرومِ تماشا: دیکھنے سے بے نصیب، بصیرت سے عاری ۔ دیدہَ بینا: دیکھنے والی آنکھ، بصیرت ۔ اوروں کو: دوسروں کو، قوم کو ۔
مطلب: وہ لوگ جو بصیرت سے محروم ہو چکے ہیں انہیں بصیرت کے ساتھ بصارت بھی عطا کر ۔ اور میری آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی ہیں وہ دوسرے مسلمانوں کو بھی دکھا دے ۔
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل اس شہر کے خوگر کو، پھر وسعتِ صحرا دے
معانی:: بھٹکا ہوا آہو: راستہ بھولا ہوا ہرن، مراد مسلمان جو اسلام کی راہ سے ہٹ گیا ہے ۔ سوئے حرم: کعبہ کی طرف یعنی اسلام کی طرف ۔ شہر کا خوگر: مراد جغرافیائی حدوں میں محدود رہنے کا عادی ۔ وسعتِ صحرا: ریگستان کا سا پھیلاوَ، پوری دنیا میں پھیلنا ۔
مطلب: مسلمان آج ایک گم کردہ راہ ِ ہرن کی طرح ہے اسے پھر سے حرم کعبہ کی طرف لوٹا دے اور اس کی فکر کو صحرا جیسی وسعت عطا کر دے ۔
پیدا دلِ ویراں میں پھر شورشِ محشر کر اس محملِ خالی کو، پھر شاہدِ لیلا دے
معانی:: دلِ ویراں : عشق اسلام کے جذبوں سے خالی دل ۔ شورشِ محشر: قیامت کا سا ہنگامہ، مراد زبردست جوش و ولولہ ۔ محملِ خالی: حضور اکرم کے عشق سے خالی دل ۔ شاہدِ لیلا: یعنی حضور اکرم کی محبت ۔
مطلب: اس اجڑے ہوئے دل میں پھر سے حشر بپا کر دے اس کے خالی کجاوے کو لیلیٰ جیسا محبوب عنایت فرما ۔
اس دور کی ظلمت میں ہر قلبِ پریشاں کو وہ داغِ محبت دے جو چاند کو شرما دے
معانی:: ظلمت: اندھیرا، برائیاں ، خرابیاں ۔ قلبِ پریشاں : فکر مند دل ۔ داغِ محبت: یعنی محبت کی روشنی ۔ جو چاند کو شرما دے: جس کے آگے چاند کی روشنی پھیکی پڑ جائے ۔
مطلب: یہ دور تاریکی کا دور ہے جس میں کسی کو کچھ نہیں سوجھ رہا ۔ اسی سبب مسلمانوں کے دل ابتری کا شکار ہیں ۔ ان دلوں کو ایسا داغ محبت دے جو چاند کو بھی شرما دے ۔
رفعت میں مقاصد کو ہمدوشِ ثریا کر خودداریِ ساحل دے، آزادیِ دریا دے
معانی:: رفعت: بلندی ۔ ہمدوشِ ثریا: ستاروں کی بلندی کے برابر ۔ خودداریِ ساحل: کنارے کی سی غیرت جو پانی کے تھپیڑے سہ کر بھی اپنی جگہ برقرار رہتا ہے ۔ آزادیِ دریا: جس طرح دریا یا سمندر کا پانی جدھر چاہتا ہے رخ موڑ لیتا ہے ۔
مطلب: ان کے جو مقاصد ہیں ان کو ثریا کی سی بلندی عطا کر ۔ ان کو ساحل جیسی خودداری اور دریا کی روانی جیسی آزادی بخش دے ۔
بے لوث محبت ہو، بیباک صداقت ہو سینوں میں اجالا کر، دل صورت مینا دے
معانی:: بے لوث: حرص وغیرہ سے پاک ۔ بیباک صداقت: ہر طرح کے خوف سے پاک سچائی ۔ صورت : مانند، طرح ۔ مینا: شراب کی صراحی ۔
مطلب: ان مسلمانوں کے دلوں میں ایسی محبت موجزن ہو جو بالکل بے لوث ہو جس میں لالچ اور ہو س کا شائبہ تک نہ ہو ۔ مزید یہ کہ انہیں بے خوف و خطر سچ بولنے کی توفیق عطا فرما ۔ ان کے دلوں میں اجالا پیدا کر دے اور دلوں کو وہ صلاحیت دے جو دوسروں کو فیض پہنچا سکے ۔
احساس عنایت کر آثارِ مصیبت کا امروز کی شورش میں اندیشہَ فردا دے
معانی:: آثار: جمع اثر ، علامتیں ۔ امروز: آج ۔ شورش: ہنگامہ ۔ اندیشہَ فردا: آنے والے کل کی فکر ۔
مطلب: مسلمان آج مصائب و آلام میں گھرے ہوئے ہیں لیکن بے حسی کا شکار ہیں ۔ خدایا انہیں مصائب سے متنبہ کر اور حال کے ہنگاموں کے پس منظر میں مستقبل کی فکر عطا کر ۔
میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا تاثیر کا سائل ہوں ، محتاج کو داتا دے
معانی:: بلبلِ نالاں : فریاد کرتی ہوئی بلبل یعنی علامہ اقبال ۔ اجڑا گلستاں : مراد ہندوستان جو انگریزون کی غلامی کا شکار تھا ۔ داتا: سخی، عطا کرنے والا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں اے آقا! میں تو ایک ویران باغ میں نالہ و فریاد کرنے والے بلبل کی طرح ہوں جس کی گریہ و زاری میں تاثیر باقی نہیں رہی چنانچہ اے ہر فرد کی حاجت روائی کرنے والے میں تجھ سے اپنی تاثیر کا طلبگار ہوں ۔