Please wait..

خاقانی

 
وہ صاحبِ تحفہ العراقین
اربابِ نظر کا قرۃ العین

معانی: خاقانی فارسی کا ایک مشہور شاعر اور حکیم ۔ تحفتہ العراقین: خاقانی کی ایک مشہور فارسی مثنوی کا نام ہے ۔ جس میں اس نے اپنے سفر حج کے حالات لکھے ہیں ۔ قرۃ العین: آنکھوں کی ٹھنڈک، مقبول ، ہردلعزیز ۔
مطلب: مشہور فارسی مثنوی تحفتہ العراقین کا مصنف جو صحیح نظر رکھنے والوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے یا ان میں مقبول ہے اور جس کی حکمت، دانش یا عقل و فکر پردوں کو چاک کرنے والی ہے ۔

 
ہے پردہ شگاف اس کا ادراک
پردے ہیں تمام چاک در چاک

معانی: پردہ شگاف: پردوں کو چاک کرنے والی ۔ ادراک: عقل، حکمت ۔ چاک در چاک: تا تار، پھٹے ہوئے ۔ صاحب: مالک، یہاں مصنف ۔
مطلب: اس نے ان پردوں کو جو نظر انسانی اور حقیقت کے درمیان ہوتے ہیں اپنے افکار و خیالات سے تار تار کر دیا ہے جسکے نتیجہ میں اہل نظر ان پردوں کے پیچھے جو کچھ ہے اسے دیکھ رہے ہیں ۔

 
خاموش ہے عالمِ معانی
کہتا نہیں حرفِ لن ترانی

معانی: عالم معانی: معانی یا حقیقت کو جاننے والا ۔ حرف لن ترانی کہنا: شیخی بگھارنا، باتیں بنانا ۔
مطلب: معانی یا حقیقت کا عالم (جاننے والا، علم والا) خاموش رہتا ہے اور خواہ مخواہ شیخی نہیں بگھارتا ۔ خالی ڈھول آواز دیتے ہیں ۔ خاقانی نے بھی ڈینگیں نہیں ماریں اس سے پوچھنا پڑے گا ۔ کیا پوچھنا پڑے گا، یہ اگلے شعر میں ہے ۔

 
پوچھ اس سے یہ خاکداں ہے کیا چیز
ہنگامہَ این و آں ہے کیا چیز

معانی: خاکدان: کوڑا پھینکنے کی جگہ، مراد دنیا ۔ ہنگامہ این و آں : یہ وہ کا ہنگامہ، طرح طرح کے ہنگامے یا شور ۔
مطلب: اس شاعر بنام فضل الدین خاقانی سے پوچھ کہ یہ دنیا کیا ہے اور اس میں جو طرح طرح کے ہنگامے پرپا رہتے ہیں اور طرح طرح کا شور و غل رہتا ہے وہ سب کیا ہے ۔

 
وہ محرم عالمِ مکافات
اک بات میں کہہ گیا ہے سو بات

معانی: محرم: جاننے والا ۔ عالم مکافات: وہ جہان جہاں ادلے کا بدلا مل جاتا ہے ۔
مطلب: خاقانی وہ شاعر اور حکیم ہے جو اس دنیا کا اچھی طرح جاننے اور اس کو اچھی طرح سمجھنے والا ہے ۔ اس نے ایک بات کی جس میں سو باتیں آ جاتی ہیں وہ بات اگلے شعر میں ہے ۔

 
خود بوئے چنیں جہاں تواں برد
کابلیس بماند و ابوالبشر ُمرد

مطلب: ایسی دنیا کی خبر لینی چاہیے جس میں ابلیس زندہ اور انسان مر چکا ہے یعنی اس کا مطیع ہو گیا ہے ۔ اس دنیا کو چونکہ اوپر کے شعروں میں کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ ذلیل ، مردار وغیرہ کیا گیا ہے اس لیے خاقانی اپنے اس فارسی شعر میں کہتا ہے کہ دنیا کو سمجھنا مشکل نہیں ۔ اس جہان کی بو خود ہی ناک تک پہنچ جاتی ہے ۔ دنیا کا رویہ اور اس کے واقعات اس کی بدبو پہچاننے کے لیے کافی ہیں ۔ کیا دنیا کی ذلت اور بدبودار شے ہونےکا آپ اس سے اندازہ نہیں کر سکتے کہ آدم تو مر گیا ہے اور شیطان ابھی تک زندہ ہے جو اپنی شیطنت پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہا ۔ اور دنیا کو نیکی اور خدا شناسی کا گھر بننے سے روکنے کے لیے اپنی یلغار شیطانی سے اسے شیطانی گھر بنائے ہوئے ہے ۔ اہل حقیقت اسی لیے ایسی دنیا سے نفرت کرتے ہیں جہاں سے یزداں تو غائب ہو اور اسمین اہرمن پھل پھول رہا ہو ۔