Please wait..

محراب گل افغان کے افکار
(۱۳)

 
مجھ کو تو یہ دنیا نظر آتی ہے دِگرگوں 
معلوم نہیں ، دیکھتی ہے تیری نظر کیا

معانی: دگر گوں : بدلی ہوئی ۔
مطلب: اس شعر میں شاعر اپنے سوا دوسروں سے خطاب کرتا ہوا کہتا ہے کہ دور حاضر کی دنیا مجھے بدلی ہوئی نظر آتی ہے اور اس میں وہ اقدار مفقود ہیں جو ایک اچھی دنیا کے لیے ہونی چاہیں لیکن اے میرے مخاطب خبر نہیں کہ تیری نظر بھی اسے میری طرح ہی دیکھتی ہے یا اس میں کوئی خوبیاں پا کر تو اس کا شکار ہو رہا ہے ۔

 
ہر سینے میں اک صبحِ قیامت ہے نمودار
افکار جوانوں کے ہوئے زیر و زبر کیا

معانی: زیر و زبر: الٹ پلٹ، بدلے ہوئے ۔ صبح قیامت: روز حشر کا سا شور ۔ نمودار: ظاہر ۔ افکار: خیالات ۔
مطلب: شاعر نے پہلے شعر میں چونکہ یہ بات کہی ہے کہ مجھے دنیا بدلی ہوئی نظر آتی ہے اس تبدیلی کی ایک مثال دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ میں نے ہر آدمی کے سینے میں روز محشر کا سا شوراور ہنگا مہ ظاہر ہوتے دیکھا ہے ۔ مراد ہے کہ لوگوں کے قدیم خیالات، روایات اورر اقدار عہد حاضر کے پرتو سے ایسے بدل رہے کہ جیسے دنیا حشر میں بدل جائے گی ۔ مراد ہے کہ ان میں یکسر تبدیلی آ چکی ہے ۔ اے میرے مخاطب کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ آج کے نوجوانوں کے خیالات بھی الٹ پلٹ چکے ہیں ۔ اور ان میں مغرب کے خیالات اس تیزی سے نفوذ کر رہے ہیں کہ جس سے وہ یکسر تبدیل ہو چکے ہیں ۔

 
کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی
اے پیرِ حرم تیری مناجاتِ سحر کیا

معانی: بے معرکہ: بغیر تصادم یا جنگ کے ۔ تلافی: نقصان کا پورا کرنا ۔ پیرحرم: کعبے یا مسجد کا پیر یا امام ۔ مناجات سحر: صبح کے وقت کی دعا یا خدا سے التجا ۔
مطلب: اقبال کے مطابق اس دنیا میں رہنے والے مسلمان اور ملت اسلامیہ کے نوجوان اس حد تک بدل چکے ہیں اور یورپی افکار کے تحت اپنا دینی اور دنیاوی اس قدر نقصان کر چکے ہیں کہ بغیر بہت بڑے تصادم اور جنگ اور کوشش کے اس نقصان کا پوار کیا جانا ممکن نہیں ۔ اے کعبہ کے امام بے شک تو صبح کے وقت خدا سے التجا کرتا ہے کہ وہ اسلام اور مسلمان کی بگڑی ہوئی تقدیر کو بدل دے لیکن یہ کام محض دعا سے نہیں بنے گا ۔ اس کے لئے انقلابی کوشش اور ناموافق حالات سے تصادم کا اختیار کیا جانا ضروری ہے ۔

 
ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں سے
اس شعلہَ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا

معانی: خودی: خود آگاہی، خود معرفتی ۔ تخلیق: پیدا کرنا ۔ خانقاہ: وہ جگہ جہاں صوفی رہتا ہے ۔ شعلہ نم خوردہ: ایسا شعلہ جس میں نمی آ گئی ہو ۔ ٹوٹے گا: نکلے گا ۔ شرر: چنگاری ۔
مطلب: شاعر نے اس شعر میں صوفیوں کے ان ٹھکانوں کو جو آج اپنی اصلیت کھو چکے ہیں کہا ہے کہ ایسی جگہوں پر آدمی میں خودی یا خود آگاہی کا جوہر پیدا نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کی مثال ایک ایسے شعلے کی طرح ہے جو گیلا ہو چکا ہو اور ظاہر ہے کہ گیلے شعلے سے کوئی چنگاری نہیں نکل سکتی ۔