Please wait..

فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں

 
عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بیتابی
خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا سیمابی

معانی: بیتانی: بے چینی ۔ خاکی: مٹی سے ۔ سیمابی: پارے کی خاصیت والا ۔
مطلب: پانچ اشعار پر مشتمل اس مختصر سی نظم میں اقبال نے اپنے مخصوص انداز میں تصوراتی سطح پر فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ اس مکالمے کی نشاندہی کی ہے جب کہ رب العزت نے حضرت آدم کو بہشت سے نکال کر اس لیے زمین پر بھیج دیا تھا کہ انھوں نے اس کی نافرمانی کی تھی ۔ یہاں انھوں نے اپنے اشعار میں اس تصوراتی اور تخیلی سطح پر مکالمے کو یوں پیش کیا ہے کہ اے آدم! یہاں فردوس میں جو تو اس طرح مضطرب اور بیتاب رہتا ہے آخر اس کی کیا وجوہات ہیں ہم نے تیرے بارے میں بہت سوچا لیکن یہ طے نہ کر سکے کہ تو خاک سے پیدا ہوا ہے یا پارے سے ۔

 
سُنا ہے خاک سے تیری نمود ہے، لیکن
تری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی

معانی: سرشت: فطرت ۔ کوکبی و مہتابی: ستاروں اور چاند جیسی فطرت ۔
مطلب: شنید تو یہی ہے اور ارشاد خداوندی بھی یہ کہ تیری تخلیق مٹی سے کی گئی ہے لیکن تیری سرشت کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں تاروں اور چاند کی سی چمک دمک دکھائی دیتی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ قدرت نے تجھے بے شک مٹی سے پیدا کیا جس کا تعلق زمین سے ہے لیکن تیری فطرت عملاً ارتقاء اور بلندیوں سے ہم آہنگ نظر آتی ہے ۔

 
جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے
ہزار ہوش سے خوشتر تری شکر خوابی

معانی: جمال: حسن ۔ ہوش: جاگنا ۔ شکر خوابی: میٹھا خواب لینا ۔
مطلب: خدائے عزوجل نے تجھ میں وہ صلاحتیں اور کمالات ودیعت کیے ہیں کہ اگر تو خواب میں بھی ان کا تصور کرے تو یوں لگے گا کہ تیری میٹھی نیند عالم ہوش کی بیداریوں پر بھی فوقیت اور برتری رکھتی ہے ۔

 
گراں بہا ہے ترا گریہَ سحر گاہی
اسی سے ہے ترے نخلِ کہن کی شادابی

معانی: گراں بہا: بہت قیمتی ۔ گریہ: رونا ۔ سحر گاہی: صبح کی عبادت ۔ نخلِ کہن: کھجور کا درخت ۔ شادابی: ہریالی ۔
مطلب: اے آدم! جب تو صبحدم بارگاہ خداوندی میں سربسجود ہو کر اس کے حضور گریہ و زاری کرتا ہے تو یہ بیش بہا عمل ہر عبادت سے افضل نظر آتا ہے کہ یہ عجز و انکسار کی انتہا ہے اور یہی عمل ہر لمحے نہ صرف یہ کہ تجھے تروتازہ رکھتا ہے بلکہ اسی سے تیرا ضمیر بھی مطمئن رہتا ہے اور روح کو سکون بھی نصیب ہوتا ہے ۔

 
تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ضمیر
کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی

معانی: ضمیر: اندرون ۔ مضرابی: ستار کے تاروں کو حرکت میں لانا ۔
مطلب: تیری صداؤں میں وہ کیف موجود ہے جو راز ہائے زندگی کو بے نقاب کرتا ہے ۔ ان میں وہ اسرار و رموز پوشیدہ ہیں جن سے افراد کو اپنی شناخت میں مدد ملتی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تجھ میں جتنے بھی جوہر اور کمالات موجود ہیں وہ خدائے ذوالجلال کے عطا کردہ ہیں مزید یہ کہ ایسے جوہر اور کمالات قدرت نے کسی اور کو عطا نہیں کیے ۔ اسی لیے تجھے کائنات کی ہر شے سے افضل و برتر قرار دیا گیا ہے ۔