Please wait..

نپولین کے مزار پر

 
راز ہے، راز ہے تقدیرِ جہانِ تگ و تاز
جوشِ کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز

معانی: تگ و تاز: محنت و مشقت ۔ کردار: چال چلن ۔
مطلب: نپولین کا شمار فرانس ہی نہیں دنیا کے چند عظیم ترین جرنیلوں میں ہوتا ہے ۔ یہ اس کی بے پناہ صلاحیت اور جدوجہد کا نتیجہ ہی تھا کہ اس معمولی لیٖفٹنٹ کے عہد ہ سے ترقی پا کر وہاں کی افواج کا سپہ سالار پھر مطلق العنان بادشاہ بنا ۔ زندگی میں اس نے سینکڑوں جنگیں جیتیں لیکن واٹلو کے مقام پر انگریزوں سے شکست کھائی جس کے سبب وہ جزیرہ ہلینا میں قید کر دیا گیا اور 1891ء میں وہیں اس نے وفات پائی ۔ نپولین کے اس زوال کے باوجود پیرس کے قلب میں اس کا عظیم الشان مقبرہ تعمیر کیا گیا جو آج بھی مرجع خاص و عام ہے ۔ اقبال جب پیرس میں نپولین کے مقبرے میں گئے تو اس سے متاثر ہو کر انھوں نے یہ نظم کہی ۔ یہ اقبال کی انتہائی بلند پایہ نظموں میں سے ایک ہے ہر چند کہ یہ مختصر سی نظم چھ اشعار پر مشتمل ہے اس کے باوجود اس میں نپولین اعظم کا مکمل کردار جھلکتا ہے ۔ ملاحظہ کیجیے، ہر چند کہ یہ دنیا جوش عمل اور انتہائی جدوجہد کی حامل ہے اس کے یہاں انسانی تقدیر ایک راز کی حیثیت رکھتی ہے جس کی عقدہ کشائی کسی کے بس کا روگ نہیں ۔ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے اس کے بارے میں انسانی علم کچھ بتانے سے معذور ہے ۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ انسان میں جوش عمل اور جدوجہد کا جذبہ موجود ہو تو تقدیر کے بھید کھلنے کا امکا ن پیدا ہو جاتا ہے ۔

 
جوشِ کردار سے شمشیرِ سکندر کا طلوع
کوہِ الوند ہوا جس کی حرارت سے گداز

معانی: طلوع: باہر نکلا ۔ کوہِ الوند: پہاڑ کا نام ۔
مطلب: اور یہی جوش کردار و عمل تھا جس کی مدد سے سکندر اعظم نے ایران جیسی مستحکم اور پرشکوہ سلطنت کو تہہ و بالا کر دیا اور اس کا نقش صفحہ ہستی سے مٹ گیا ۔

 
جوشِ کردار سے تیمور کا سیلِ ہمہ گیر
سیل کے سامنے کیا شے ہے نشیب و فراز

معانی: سیلِ ہمہ گیر: ہر جگہ سیلاب کی طرح بہا لے جانا ۔ نشیب و فراز: اونچ نیچ ۔
مطلب: یہ جوش کردار و عمل ہی تھا جس نے تیمور کی عسکری قوت کو ایک ہمہ گیر طوفان میں ڈھال دیا ۔ اس طوفان کے مقابلے پر جو کچھ بھی آیا اس کے ریلے میں بہہ گیا ۔ ظاہر ہے کہ اس نوع کے ہمہ گیر طوفان کے مقابلے پر بلندی اور پستی کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے ۔ وہ تو جب پوری تیزی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو نہ بلندی کو دیکھتا ہے نا ہی پستی کو ہر چیز کو روند کر بڑھتا چلا جاتا ہے ۔

 
صفِ جنگاہ میں مردانِ خدا کی تکبیر
جوشِ کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز

معانی: صفِ جنگاہ: میدانِ جنگ کی صفیں ۔
مطلب: میدان کارزار میں جب اللہ کے سپاہی معرکہ آرا ہو کر تکبیر کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو جوش کردار عمل ہی اس کی بنیاد ہوتا ہے اور پھر یہی نعرہ عملاً نعرہ حق یعنی خدا کی آواز بن جاتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ نعرہ تکبیر میں رضائے الہٰی بھی شامل ہو جاتی ہے ظاہر ہے کہ دشمن کے لیے تو یہ نعرہ صور اسرافیل سے کم نہیں ہوتا ۔

 
ہے مگر فرصتِ کردار نفس یا دو نفس
عوضِ یک دو نفس قبر کی شب ہائے دراز

معانی: نفس یا دو نفس: ایک دو سانس، مختصر ۔ دراز: طویل ۔
مطلب: تاہم یہ جوش کردار و عمل انسان کی عمر کے ساتھ بہت ہی مختصر ہوتا ہے اس کے بعد تو قبر کی لمبی تاریکی ہے جو روز قیامت تک مقدر کر دی گئی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ زندگی عارضی اور مختصر ہوتی ہے ۔ اپنے کردار اور عمل سے اس مختصر وقت سے پوری طرح استفادہ کرنا چاہیے تا کہ انسان کا نام اس کی موت کے بعد بھی زندہ رہے ۔ اور یہ سب کچھ جوش کردار و عمل کے بغیر ممکن نہیں ۔

 
عاقبت، منزلِ ما وادیِ خاموشاں است
حالیا غلغلہ در گنبدِ افلاک انداز 

مطلب: نظم کا یہ آخری شعر اقبال کا نہیں بلکہ حافظ کا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انسان کی منزل بالاخر قبر ہی تو ہے جہاں تاریکی اور سکوت و خامشی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ قبر سے نہ تو کوئی صدا بلند ہوتی ہے نا ہی اور کوئی شے قریب پھٹکتی ہے ۔ جب صورت حال یہ ہو تو کیوں نہ زندگی کو ہنگامہ ہاوَ ہو میں صرف کیا جائے اور اس آواز کو یوں بلند کیا جائے کہ وہ گبند افلاک میں بھی غلغلہ پیدا کر دے ۔
ان اشعار میں نپولین کے عملی کردار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی موت کے بعد کا منظر نامہ بھی ایک طرح سے نمایاں کیا گیا ہے ۔