Please wait..

(۵)

 
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا
اور اسیرِ حلقہَ دامِ ہوا کیونکر ہوا

معانی: اسیر: قیدی ۔ حلقہَ دام ہوا: لالچ، ہوس کے جال کی ڈوری ۔
مطلب: اس غزل کے مطلع میں اقبال حضرت آدم کے حوالے سے جنت سے نکالے جانے والے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کا حقیقی وطن تو جنت ہی تھا لیکن وہاں سے جس طرح اسے نکالا گیا اس کے بارے میں حقائق کا اظہار میرے لیے ممکن نہیں ۔ چنانچہ یہ بھی بتانا ممکن نہیں کہ زمین پر پہنچ کر انسان حرص و ہوس کے چنگل میں کیسے پھنس گیا ۔

 
جائے حیرت ہے بُرا سارے زمانے کا ہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیوں کر ہوا

معانی: شرافت کا خلعت: مرا د انسان کے تمام مخلوق میں افضل ، اشرف ہونے کا خاص لباس ۔
مطلب: جب سارا زمانہ انسان کو برا سمجھ کر حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے تو یہ مقام حیرت ہے کہ رب العزت نے اسے اشرف المخلوقات کا خطاب کیوں عطا کیا ۔

 
کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طُور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلہ کیوں کر ہوا

مطلب: اس شعر میں واقعہ طور کی طرف اشارہ کر کے کہا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر خداوند عزوجل سے اس کا جلوہ دکھانے جو تقاضا کیا تھا اور کہا تھا رب ارنی یعنی اے خدا اپنا جلوہ دکھا دے ۔ تو خدا کی جانب سے اپنے پیغمبر کو جواب ملا تھا کہ لن ترانی اے موسیٰ تو میرا جلوہ دیکھنے کی تاب نہیں لا سکتاچنانچہ ہوا بھی یہی کہ حضرت موسیٰ کے اصرار پر خدا نے اپنا جلوہ دکھایا تو وہ اس کی تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہو گئے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ یہ جلوہ دیکھنے اور دکھانے کا معاملہ کس طرح سے طے ہوا اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا ۔

 
ہے طلب بے مُدعا ہونے کی بھی اک مدعا
مرغِ دل دامِ تمنا سے رہا کیوں کر ہوا

معانی: دامِ تمنا: خواہش کا جال ۔ رہا ہونا: چھوٹ جانا ۔
مطلب: قلب انسان ہمیشہ آرزووَں اور تمنا کا مسکن رہا ہے تا ہم اگر انسان اس امر کا خواہاں ہو کہ اس کا دل ہر آرزو اور تمنا سے بے نیاز ہو جائے تو یہ امر کی آرزو اور تمنا کے مترادف ہے ۔ اس صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ قلب انسان آرزووَں اور تمناؤں سے خالی ہو جائے ۔

 
دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے
پھر یہ وعدہ حشر کا صبر آزما کیوں کر ہوا

مطلب: حشر: قیامت ۔ صبر آزما: تکلیف دینے والا ۔
مطلب: جو نیک بندے معرفت الہٰی کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ تو دنیا میں بھی خدا کا جلوہ کسی نہ کسی طور پر دیکھ لیتے ہیں ۔ چنانچہ خدا نے قیامت کے روز اپنا جلوہ دکھانے کا جو وعدہ کیا ہے یقینا صبر آزما ہونے کے ساتھ فہم انسانی سے بالاتر ہے ۔

 
حُسن کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب
وہ جو تھا پردوں میں پنہاں ، خود نما کیوں کر ہوا

معانی: حسنِ کامل: مکمل حسن، مراد قدرت کا حسن ۔ بے حجابی: پردے کے بغیر ہونا ۔ وہ : مراد محبوب حقیقی ۔
مطلب: اس کائنات کے پیدا کرنے والے نے ہزار پردوں میں خود کو چھپانے کے باوجود اپنی صفات کے حوالے سے ظاہر اور نمایاں کر دیا ۔ اس کا سبب یہی ہے کہ وہ حسن کامل ہے اور حسن کامل پردوں میں چھپا نہیں رہ سکتا ۔

 
موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے دردِ فراق
چارہ گر دیوانہ ہے، میں لادوا کیوں کر ہوا

معانی: چارہ گر: طبیب، حکیم ۔ دیوا نہ: پاگل ۔ لادوا: لا علاج ۔
مطلب: محبوب سے ہجر و فراق کا مداوا بے شک میرے چارہ گر کے نزدیک کچھ نہ ہو لیکن میں سمجھتا ہوں کہ موت اس کا حقیقی مداوا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ موت کے ساتھ ہی ہجر و فراق کا مسئلہ بھی ختم ہو کر رہ جاتا ہے ۔

 
تو نے دیکھا ہے کبھی اے دیدہَ عبرت کہ گل
ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیوں کر ہوا

معانی: دیدہَ عبرت: سبق حاصل کرنے والی آنکھ ۔ رنگیں قبا: سرخ لباس والا ۔
مطلب: اقبا ل اس شعر میں کہتے ہیں کہ دیدہَ عبرت سے دیکھا جائے تو اس پر کوئی حیرت نہیں ہو گی کہ پھول پیدا تو مٹی سے ہوتا ہے اس کے باوجود اس کی پتیاں خوش نما رنگوں کی حامل ہوتی ہیں ۔ یعنی انسان کی صحبت کتنی ہی بری ہو اس میں اچھا بننے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔

 
پرُسشِ اعمال سے مقصد تھا رسوائی مری
ورنہ ظاہر سبھی کچھ، کیا ہوا! کیوں کر ہوا

معانی: پرسش اعمال: عملوں کے بارے میں پوچھ گچھ ۔
مطلب : اقبال کہتے ہیں کہ یہ جو انسان کے گناہ و ثواب کا معاملہ ہے تو اس کا مقصد اس کی رسوائی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے جب کہ خدا علیم و بصیر ہوتے ہوئے اس امر سے پوری طرح آگاہی رکھتا تھا کہ انسان سے جملہ گناہ ثواب کیسے اور کیوں سرزو ہوئے ۔

 
میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
کیا بتاؤں ان کا میرا سامنا کیوں کر ہوا

مطلب: اپنے محبوب سے ملاقات کے لمحات کا اندازہ تو دیکھنے سے ہی ہو سکتا ہے کہ میں اس پر کسی طرح سے مرمٹا ۔ یہ کیفیت زبان سے بیان کرنا ممکن نہیں ۔