Please wait..

ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض
(۱۳)

 
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں

معانی: صبح و شام: ہر روز، ہر لمحہ ۔ تقدیر: قسمت ۔ نشاں : پتہ ۔
مطلب: جو قو میں زندہ ہوتی ہیں ان کا پتہ یہ ہے کہ ہر لمحہ ان کی قسمت بدلتی رہتی ہے ۔ وہ عمل کی راہ پر گامزن ہو کر اور اپنی مخالف قوتوں کو زیر کر کے ہر لمحہ آگے بڑھتی رہتی ہیں ان کا ہر لمحہ پہلے لمحہ سے بہتر ہوتا ہے ۔

 
کمالِ صدق و مروّت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں

معانی: صدق: سچائی، دیانت ۔ کمال: انتہا ۔ مروت : انسانوں کا آپس میں حسن سلوک، ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی کرنا اور ہمدردی سے پیش آنا ۔ فطرت: قدرت ۔ تقصیر: غلطی، لغزش، کوتاہی ۔
مطلب: زندہ قوموں کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ اس کے افراد سچائی، دیانت، آپس کے حسن سلوک اور ہمدردی اور آپس میں ایک دوسرے کی بھلائی چاہنے کے جذبوں اور اصولوں کو انتہائی حد تک نبھاتے ہیں ۔ زندگی کے کسی شعبہ میں خیانت نہیں کرتے اور آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے سے بچتے ہیں ۔ ان کی نیت کی اس صفائی کو دیکھتے ہوئے قدرت بھی ان کی ایسی خطائیں ، لغزشیں اور غلطیاں معاف کر دیتی ہے اور سہواً یا اتفاقاً ان سے سرزد ہو جاتی ہیں ۔

 
قلندرانہ ادائیں ، سکندرانہ جلال
یہ اُمتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں 

معانی: قلندرانہ : قلندر کی طرح، قلندر وہ شخص ہوتا ہے جو غیر اللہ سے ہر تعلق ختم کر کے صرف خدا کی ذات کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور خدا کے بھروسے پر جو کچھ اس کے جی میں آتا ہے کر گزرتا ہے ۔ ادا: طرز عمل ۔ جلال: دبدبہ، شوکت ۔ امت: قوم ۔ برہنہ: ننگی ۔ شمشیر: تلوار ۔
مطلب: زندہ قوموں کی ایک شناخت یہ بھی ہے کہ ان کے افراد اپنے طرز عمل میں اور اپنے رویے میں قلندر جیسا بے نیازانہ حسن رکھتے ہیں وہ ہر طرف سے منہ موڑ کر صرف اپنی اور اپنی قوم کی بہتری اور بھلائی کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ ان کی شوکت اور دبدبے کی دھاک اسی طرح اہل عالم پر بیٹھ جاتی ہے جس طرح قدیم یونان کے بادشاہ سکندر اعظم نے اپنے وقت میں دنیا والوں پر بٹھائی تھی ۔ مراد ہے ان میں جمال اور جلال دونوں موجود ہوتے ہیں ۔ وہ امن کے زمانے میں اور آپس میں سلوک کے حساب سے سراپا حسن ہوتے ہیں ۔ نرمی اور ملائمت سے کام لیتے ہیں ۔ جب مخالفوں اور دشمنوں پر رعب بٹھانے کا وقت آئے تو وہ سکندر کی طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ ایسی قو میں جن کے افراد کی دو صفات کا ابھی ذکر کیا گیا ہے دنیا میں ننگی تلوار کی مانند ہوتی ہیں ۔ ان کی آزادی اور ترقی کے راستے میں جو رکاوٹ بھی آتی ہے اسے ہٹاتے ہوئے آگے بڑھتی رہتی ہے ۔

 
خودی سے مردِ خود آگاہ کا جمال و جلال
کہ یہ کتاب ہے، باقی تمام تفسیریں

معانی: خودی: اپنی پہچان ۔ مرد خود آگاہ: اپنی پہچان کر چکنے والا آدمی ۔ جمال: حسن ۔ جلال: شوکت، دبدبہ ۔ تفسیر: شرح ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال اپنے کلام کے بنیادی مضمون خودی کی طرف آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب آدمی اپنی پہچان کر کے اور اپنے جوہر بنیادی کو بروئے کار لا کر اپنی صلاحیتوں اور مقام سے آگاہ ہو جاتا ہے تو اس میں جمال اور جلال کی شانیں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ حسن سے مراد یہاں چہرے کا حسن نہیں بلکہ شخصیت اور کردار کا حسن ہے ۔ شوکت اور دبدبہ سے بھی مراد مال و دولت اور دنیاوی جاہ و چشم کا رعب نہیں ہے بلکہ درویشی، فقر اور ایمان کی وہ شوکت ہے جس کے آگے ہر شوکت ہیچ ہے اور یہ شان و شکوہ غریبی میں بھی ہوتا ہے اور امیری میں بھی ۔ غریبی میں وہ اللہ کے سوا ہر کسی سے بے نیازی اورر امیری میں فقیری رویہ زندگی کی بدولت پیدا ہوتا ہے ۔ یوں سمجھئے کہ خودی ایک کتاب کی مانندہے اور باقی جو کچھ بھی ہے وہ اسی کی شرح ہے ۔ خودی ہو گی تو آدمی میں وہ حسن اور وہ شوکت پیدا ہو گا جس کا ذکر اوپر ہوا ہے ۔ اگر یہ نہیں تو چہرے کا اڑ جانے والا رنگ اور حسن اور اقتدار عہدہ اور مال و دولت کا جھوٹا دبدبہ تو آدمی میں ہو سکتا ہے اصل حسن اور اصل شوکت جس سے آدمی میں شان آدمیت پیدا ہوتی ہے اور اس سے اس کا شرف قائم رہتا ہے اس میں نہیں ہوتی ۔ اپنے اندر اس دو رخی شان کو پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو اپنی معرفت حاصل ہو ۔ اسے اپنی پہچان ہو جائے کہ میں کون ہوں اور کیا ہوں ۔ اپنے آپ سے آگاہ ہونے والا ایسا شخص حقیقی مرد ہوتا ہے ورنہ وہ جنس کے اعتبار سے تو مرد ہو سکتا ہے حقیقت میں مخنث سے بھی بد تر ہوتا ہے ۔

 
شکوہِ عید کا منکر نہیں ہوں میں لیکن
قبولِ حق ہیں فقط مردِ حُر کی تکبیریں

معانی: شکوہ: شان، شوکت، دبدبہ ۔ عید: مسلمانوں کا مذہبی تہورا جو روزوں کے اختتام اور حج کی ادائیگی کے موقع پر دو دفعہ آتا ہے ۔ قبول: مقبول ہونا ۔ حق: خدا ۔ فقط: صرف ۔ مرد حر: آزاد مرد ۔ تکبیر: نعرہ اللہ اکبر ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ کہتے ہیں کہ دوسری اقوام جو اس وقت روئے زمین پر غلبہ رکھتی ہیں اس وجہ سے سربلند ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں انھوں نے علم تسخیر کائنات اور جتماع قوت و کردار کے سبب شان و شکوہ پیدا کر لیا ہے ۔ لیکن مسلمان قوم نے اس طرف دھیان نہیں دیا اس لیے وہ مغلوب ہے ۔ حالانکہ قرآن کا وعدہ ہے کہ اگر تم مومن ہو تو تم ہی دوسروں پر فوقیت رکھو گے ۔ تم ہی اعلیٰ ہو گے ۔ مسلمان کے اعلیٰ اور فوق نہ ہونے سے صاف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ نام کا مسلمان ہے اور اس میں ایمان کا وہ جذبہ نہیں جو اسے مومن بنا کر دنیا میں فوق بنا سکتا ہے ۔ دوسری قوموں کے مقابلے میں ہم عید اور حج کے موقع پر بہت بڑا اجتماع کر لینے، رنگ برنگ کے کپڑے پہن لینے اور قربانی کے بکرے ذبح کرنے اور اپنی شان سمجھتے ہیں ۔ علامہ کہتے ہیں کہ بے شک یہ بھی اظہار شان کا ایک طریقہ ہے لیکن اگر مسلمان آزاد نہ ہو اور ہر شعبہ زندگی میں دوسروں کی غلامی اختیار کئے ہوے ہو تو پھر یہ شان جھوٹی اور باطل ہے ۔ ایسے موقعوں پر یا کسی اور مناسب وقت میں تکبیر کے نعرے لگانا کہ اللہ سب سے بڑا ہے خدا کے نزدیک قابل قبول نہیں کیونکہ اگر اللہ ہی واقعی ہر شے سے بڑا ہے تو پھر اے مرد مسلمان تو نے دوسروں کی آقائیت کو کیوں تسلیم کر رکھا ہے ۔ تو کس لیے غلامی کی زندگی بسر کر رہا ہے ۔ کیوں خدا کو چھوڑ کر غیر خدا کا محتاج ہے کیوں اللہ کے بجائے نفس کے بتوں کے آگے جھکا ہوا ہے ۔ تیری نماز، تیری اذان، تیرے حج، تیری عید، تیری جلسے اور تیرے جلوس میں یہ نعرہ جو لگایا جاتا ہے کہ اللہ اکبر ہے محض نمائشی ہے رسمی ہے ۔ جس دن واقعی تو نے اللہ کو اکبر تسلیم کر لیا تو اپنے اسلاف کی طرح تو دنیا میں پھر سربلند ہو جائے گا

 
حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہیں اہلِ جنوں کی تدبیریں

معانی: حکیم: حکمت والا، عقل والا، فلسفی ۔ میری نوا: میری آواز، میری شاعری ۔ راز: بھید ۔ کیا جانے: نہیں جان سکتا ۔ ورائے عقل: عقل سے اوپر ۔ اہل جنوں : جنوں والے ۔ تدبیر: منصوبہ، کوشش ۔
مطلب: میں نے اپنی شاعری کے ذریعے جو صدا بلند کی ہے جو پیغام خصوصاً وہ پیغام جس کا ذکر مندرجہ بالا اشعار میں ہے مسلمانوں کو خصوصاً اور اہل دنیا کو عموماً دیا ہے اس کی حقیقت کو عقل پرست اور روشن دماغ والے نہیں پہنچ سکتے ۔ کیونکہ میری باتوں اور پیغام کی تفہیم یا سمجھنے کا تعلق شدت عشق سے ہے اور جو بات عشق کہتا اور سمجھتا ہے اس کو عقل نہ کہہ سکتی ہے اور نہ سمجھ سکتی ہے ۔ عشق سے مراد وہ عشق نہیں جس میں ہوس اور جنس ہوتی ہے بلکہ یہ اس سے الگ ایک جذبہ ہے جس کے تحت عاشق اپنی مرضی کو اپنے سے برتر ہستی کی مرضی میں گم کر دیتا ہے اور اپنے قول و فعل ، حرکات و سکنات فکر و عمل وغیرہ میں اس برتر ہستی کو کارفرما پاتا ہے ۔ اور اسکی صفات کا مظہر بن جاتا ہے ۔ یہ ہستی اللہ کی ذات، اللہ کے رسول ﷺ کی ذات اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے تابع فرمان اور ان کی صفات کی آئنہ دار کسی مرشد، پیر یا ولی کی ذات ہوتی ہے ۔ علامہ کے کلام میں اس عشق سے مراد عموماً رسول اللہ ﷺ ہوتا ہے یہی عشق جب اتنی شدت اختیار کر لے کہ عاشق کو ہمہ وقت اپنے محبوب کی لگن لگی رہے اور یہ دھن اس پر اس طرح سوار ہو کہ اس سے سوا اسے کچھ سوجھے ہی نہیں جنون کہلاتا ہے ۔

(۱۴)

 
چہ کافرانہ قمارِ حیات می بازی
کہ با زمانہ بسازی بخود نمی سازی

مطلب: تو کیا کافروں کی طرح جُوا اپنی زندگی کا کھیلتا ہے ۔ کہ تو زمانے کا ساتھ دیتا ہے اور اپنے آپ سے نہیں ملتا ۔
اے مسلمان تو زندگی کا جوا کس کافرانہ انداز میں کھیل رہا ہے ۔ تو زمانے کے ساتھ تو بنا کر رکھتا ہے لیکن اپنے ساتھ بنا کر نہیں رکھتا ۔ دنیا میں گم ہو کر رہ جانا تو کافروں کا انداز زندگی ہے مسلمان کو تو خود میں گم ہو کر اور اپنی پہچان کر کے دنیا کو اپنے اندر گم کر لینے کا انداز اپنانا چاہیے ۔ دنیا تو مومن کی غلام ہوتی ہے نہ کہ آقا ۔

 
دِگر بہ مدرسہ ہائے حرم نمی بینم
دلِ جنید و نگاہِ غزالی و رازی

مطلب: میں جب دینی مدرسوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے مایوسی ہوتی ہے ۔ کہ اب ان میں جنید جسے دل اور غزالی و رازی جیسی بصیرت نہیں ملتی ۔
ایک وقت تھا کہ مسلمانوں میں حضرت جنید بغدادی جیسے عظیم المرتبت ولی اور امام رازی اور امام غزالی جیسے مشہور متکلم، حکیم اور فلسفی پیدا ہوئے تھے جو مسلمانوں کی باطنی اور ظاہری زندگیوں میں اسلام کی روح پھونکتے رہتے تھے ۔ ان کے ذہن و قلب دونوں کو اسلامی افکار و جذبات سے منقش و منور کرتے رہتے تھے لیکن ان کے بعد خصوصاً عہد حاضر میں ہم اسلامی مدرسے اور خانقاہیں تو دیکھتے ہیں مگر ان سے ان جیسے یعنی جنید، غزالی اور رازی لوگ پیدا نہیں ہو رہے ۔

بحکمِ مفتیِ اعظم کہ فطرتِ ازلیست
بدینِ صعوہ حرام است کارِ شہبازی

مطلب: مفتی اعظم کے حکم سے کہ پرانے یعنی ازل سے فطرت کے مطابق ۔ ممولے کے مذہب میں شہباز کے کام حرام ہیں کیونکہ وہ اس کے مقابل نہیں ۔
قدرت کے مفتی اعظم کا یہ فتویٰ ہے کہ قدرت کے قوانین میں ازل سے یہ بات موجود ہے کہ ممولہ کے ضابطہ حیات میں شہباز کے سے کام اختیار کرنا حرام اور ناجائز ہے ۔ لیکن مرد مسلمان یہ فتویٰ تسلیم نہیں کرتا ۔ قدرت کے قوانین میں بے شک ممولے کو ہمیشہ کمزور اور شہباز کو ہمیشہ طاقت ور اور ممولے کو ہمیشہ شکار اور شہباز کو ہمیشہ شکاری مانا جاتا ہے ۔ لیکن مومن جو قدرت کا غلام نہیں بلکہ قدرت اس کی غلام سے اس کو تسلیم نہیں کرتا وہ کبھی ممولہ بن کر شہباز کا شکار نہیں بن سکتا ۔ بلکہ اگر کہیں ایسا موقع آیا بھی ہے کہ کسی وجہ سے وہ دنیاوی سازوسامان کے لحاظ سے کمزور ہو گیا ہے تو وہ ایمان کی قوت کے بل بوتے پر طاقت وروں سے ٹکراگیا ہے ۔ اور اپنے شکاری کو شکار کر گیا ہے ۔ دنیاوی طاقت کا بھروسہ کافر کو ہوتا ہے لیکن مومن کو اپنے ایمان پر یقین ہوتا ہے اور اس جذبہ کے تحت وہ بے تیغ بھی لڑ جاتا ہے ۔

 
ہماں فقیہہِ ازل گفت جرہ شاہیں را
بآسماں گروی با ز میں نہ پردازی

ہماں : اسی طرح ۔ فقیہہ ازل: ازل ے فقیہہ نے، قدرت کے ان قوانین کے قانون دان نے ۔ گفت: کہا ۔ جرہ شاہیں : باز کی ایک قسم ۔ را: کو ۔ با آسماں : آسمان پر ۔ گروی: گھوم رہا ہے ۔ باز میں : زمین پر ۔ نہ پردازی: نہیں اڑتا ۔
مطلب: اسی ازلی عالم فقیہ نے شاہیں بچے سے کہا کہ ۔ بلند آسمانوں میں اڑنا اور زمین کے پستی میں نہیں ۔ جس طرح قوانین قدرت کے مفتی کا یہ فتویٰ ہے کہ ممولہ کو باز کے شکار کے طور پر پیدا کیا ہے اسی طرح قدرت کی فقہ میں ازل کے فقیہہ (فقہ کے مسائل و قوانین جاننے والے) نے یہ بات بھی لکھ دی ہے کہ اعلیٰ درجہ کے باز کا کام صرف آسمانوں پر اڑتے رہنا اور فضا میں کمزور پرندوں کا شکار کرنا ہے نہ کہ زمین پر اتر کر ان کا شکار کرنا یا گدھوں کی طرح آ کر مردار کھانا ہے اس میں بھی مسلمان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ تو بھی اعلیٰ شاہین کی طرح اپنے زور بازو سے کمایا ہوا طیب اور حلال رزق کھا نہ کہ دوسروں کا محتاج ہو کر گدھوں اور گیدڑوں جیسی حرام اور مردار خوراک سے پیٹ بھر ۔ ایسا کرنا تیرے شاہین کی طرح آزاد فضا میں سانس لینے اور کسی دوسرے کا محتاج نہ ہونے کے لیے ضروری ہے ۔

 
منم کہ توبہ نہ کردم ز فاش گوئی ہا
زیبم ایں کہ بسلطاں کنند غمازی

معانی: منم: میں وہ ہوں ۔ توبہ نہ کردم: میں نے توبہ نہیں کی ۔ کردم: میں نے نہیں کی ۔ فاش گوئی کھل کر اور صاف صاف بات کرنا ۔ ز: سے ۔ بہ نیم: ڈر سے ۔ ایں : یہ ۔ بہ سلطاں : بادشاہ سے ۔ کنند: کریں گے ۔ غمازی: چغل خوری ۔
مطلب: میں نے کھل کر بات کہنے سے توبہ نہیں کی کہ مجھے ڈر تھا ۔ کہ لوگ بادشاہ وقت سے میری چغلی کھائیں گے ۔ میں نے اس ڈر سے کہ لوگ بادشاہ وقت سے میری چغلی کھائیں گے صاف صاف اور کھل کر حق کی بات کہنا نہیں چھوڑی اور جابروں اور ظالموں کے سامنے کلمہ حق کہنے سے گریز نہیں کیا لوگوں نے مجھے کہا کہ سچائی کا یہ رویہ اختیار نہ کرو لیکن میں باز نہیں آیا اور اپنی شاعری میں بھرپور انداز سے اور بے خوف ہو کر مسلمان کو باطل کی قوت کے خلاف ڈٹ جانے کے لیے کہتا رہا ۔

 
بدستِ ما نہ سمرقند و نے بخارا ایست
دعا بگو ز فقیراں بہ ترکِ شیرازی

معانی: بدست ما: ہمارے ہاتھ میں ۔ دست: ہاتھ ۔ ما: ہمارے ۔ نے: نہ ۔ ایست: ہے ۔ سمرقند و بخارا ۔ بگو: کہ ۔ ز: سے ۔ فقیراں : فقر کی جمع جو دنیاوی سامان نہیں رکھتا ۔ بہ: سے ۔ بہ ترک شیرازی: شیراز کے ترک سے ۔ شیراز ایران کا ایک شہر ، ترک سے کنایہ ہے معشوق کی طرف ۔
مطلب: ہمارے ہاتھ میں نہ سمر قند ہے اور نہ بخارا ہے ۔ ہم فقیروں کی طرف سے تو شیرازی ترکوں کے لیے دعا ہی کیجیے ۔ خواجہ حافظ شیرازی نے جو فارسی کے ایک مشہور شاعر گزرے ہیں اپنے ایک شعر میں کہا تھا کہ اگر شیراز کا ترک میرے دل کو قبضہ میں کر لے تو میں اس کے سیاہ تل کے بدلے میں اسے سمر قند اور بخارا کے شہر بخش دوں گا یا اس کے صدقے میں خیرات کر دوں گا ۔ علامہ نے اس شعر کے مضمون سے یہ مضمون نکالا ہے کہ اگرچہ میرے ہاتھ میں سمر قند اور بخارا جیسے شہر نہیں ہیں کہ میں اپنے معشوق کو دے دوں یا اس پر قربان کر دوں ۔ میں تو ایک فقیر آدمی ہوں جس کے پاس بوریا اور گدڑی بھی نہیں ہے ۔ میں تو اس کے حق میں صرف دعا کر سکتا ہوں ۔ اگر معشوق سے مراد مسلمان قوم لی جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ پھر سے مسلمان قوم کو سرفرازی عطا کرے اور وہ غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر پہلے کی طرح پھر سے دنیا پر حکمران ہو جائے ۔