(40)
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
مطلب: اگر ان اشعار کو باقاعدہ غزل کے اشعار سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اپنے موضوعات اور فورم کے اعتبار سے یہ ایک مکمل غزل ہے ۔ مطلع میں اقبال کہتے ہیں کہ جس طرح ستاروں سے آگے اور بھی دنیاؤں کی نشاندہی کی گئی ہے اس طرح سے عشق میں آزمائشوں کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہتا ہے ۔ اور آزمائش کی یہ منزلیں اختتام پذیر نہیں ہوتیں ۔
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں
معانی: تہی: خالی ۔ کارواں : قافلہ ۔
مطلب: بظاہر جو فضائیں زندگی سے خالی نظر آتی ہیں لیکن واقعاتی سطح پر ایسا نہیں ہے ان فضاؤں میں ہزاروں قافلے رواں دواں نظر آتے ہیں اور پوری فضا زندگی سے لبریز ہے ۔
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر چمن اور بھی، آشیاں اور بھی ہیں
معانی: قناعت کرنا: تھوڑے کو بہت سمجھنا، گزارہ کر لینا ۔
مطلب: اس عالم رنگ و بو پر جسے دنیا سے تعبیر کیا جاتا ہے اسی پر قناعت نہ کر کہ اس سے آگے بھی بہت سی جیتی جاگتی دنیائیں موجود ہیں ۔
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
مطلب: اگر ایک آشیانہ کسی حادثے کے باعث ختم ہو گیا تو اس کا غم کرنا بے سود ہے اس لیے کہ ہجر محبوب میں آہ و زاری کے لیے کوئی ایک مقام تو مخصوص نہیں بلکہ اور بھی مقامات ہیں ۔
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
مطلب: اے انساں ! تو تو شاہیں صفت ہے جس کا منصب پے بہ پے عروج و ترقی کی منزلیں طے کرنا ہے او ر یہ منزل ایک آسماں تک دور نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی آسمان موجود ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ انسان عروج و ارتقاء کے مراحل سے گزرتا ہے تو اس کے لیے محض ایک حد نہیں بلکہ وسیع امکانات موجود ہیں ۔
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
معانی: زمان و مکاں : وقت اور دنیا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ اے انسان جو حدود تیرے روبرو ہیں انہی میں الجھنے پر اکتفا نہ کر! اس لیے کہ اس کے علاوہ بھی زمان و مکان کی وسعتیں موجود ہیں جو تیری جولانگاہ ہیں ۔
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
مطلب: وہ دور ختم ہوا جب یہ دنیا اہل ذوق سے خالی ہو گئی تھی اور بقول اقبال میری حکیمانہ باتیں سننے پر کوئی آمادہ نہیں ہوتا تھا لیکن اب تو صورت حال بڑی حد تک مختلف ہے ۔ یہاں کچھ ایسے اہل ذوق موجود ہیں جو میری باتوں کو سنتے اور سمجھتے ہیں بلکہ میرے حکیمانہ اقوال کے رازداں بھی ہیں ۔