Please wait..

شبلی اور حالی

 
مسلم سے ایک روز یہ اقبال نے کہا
دیوانِ جُزو و کُل میں ہے تیرا وجود فرد

معانی: شبلی: مولانا محمد شبلی نعمانی ولادت ضلع اعظم گڑھ، 1857 وفات 1914 آپ مورخ، فلسفی، نقاد، معلم اور محدث تھے ۔ آپ کی کئی تصنیفات ہیں جن میں سیرت النبی سر فہرست ہے ۔ حالی: خواجہ الطاف حسین ، تخلص حالی ولادت پانی پت 1837 وفات 1914 مرزا غالب کے شاگرد تھے ۔ دیوانِ جز و کل: یعنی اس کائنات کی کتاب ۔ وجود: ہستی ۔ فرد: بے مثال ۔
مطلب: ایک روز اقبال نے مسلمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اس کائنات میں تیرا وجود یقیناً بڑی انفرادیت کا حامل ہے ۔

 
تیرے سرودِ رفتہ کے نغمے علومِ نو
تہذیب تیرے قافلہ ہائے کہن کی گرد

معانی: سرودِ رفتہ: ماضی کا گیت ۔ نغمے: سریلی آوازیں ۔ علوم نو: جدید دور کے علوم و فنون ۔ تہذیب: موجودہ دور کا تمدن ۔ قافلہ ہائے کہن: پرانے قافلے، اسلامی تہذیب کا شاندار ماضی ۔
مطلب: جو آج نئے مروجہ علوم ہیں وہ تیرے شاندار ماضی کے پیداکردہ ہیں اور جو آج کی تہذیب ہے یہ بھی تیرے ماضی کی تہذیب کا چربہ ہے ۔

 
پتھر ہے اس کے واسطے موجِ نسیم بھی
نازک بہت ہے آئینہ آبروئے مرد

معانی: موجِ نسیم: صبح کی نرم ہوا کی لہر ۔ آبروئے مرد: دلیر اور غیرت مند آدمی کی عزت ۔
مطلب: یہ تہذیب ایک ایسے نازک اور لطیف آئینے کی مانند ہے کہ موج نسیم بھی اس کے لیے ایک پتھر کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یعنی انسان اپنی عزت و آبرو کے حوالے سے ایک نازک آئینے کی مانند ہے جو ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے ۔

 
مردانِ کار ڈھونڈ کے اسبابِ حادثات
کرتے ہیں چارہَ ستمِ چرخِ لاجورد

معانی: مردانِ کار: باعمل اور جدوجہد کرنے والے دلیرمرد ۔ چرخِ لاجورد: نیلا آسمان ۔
مطلب: اے مسلم یاد رکھ! کہ جب لوگوں میں قوت عمل ہوتی ہے وہ نیلے آسمان کے ظلم و ستم کا تدارک کر لیتے ہیں اور حادثوں کے اسباب بھی معلوم کر لیتے ہیں ۔

 
پوچھ ان سے جو چمن کے ہیں دیرینہ رازدار
کیونکر ہوئی خزاں ترے گلشن سے ہم نبرد

معانی: دیرینہ: پرانی ۔ خزاں : مراد زوال ۔ گلشن: باغ، قوم ۔ ہم نبرد: جنگ کرنے والی ۔
مطلب: جو لوگ امت مسلمہ کے عروج و زوال کی تاریخ سے آگاہی رکھتے ہیں تو ان سے جملہ مسائل کے بارے میں استفسار کر سکتا ہے جس سے تجھے اس امر کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ تیرے گلستاں میں خزاں کیونکر وارد ہوئی یعنی امت مسلمہ زوال پذیر کس طرح سے ہوئی ۔

 
مسلم مرے کلام سے بے تاب ہو گیا
غماّز ہو گئی غمِ پنہاں کی آہِ سرد

معانی: بے تاب: بے چین ۔ غماز: چغلی کھانے والا، بھید کھول دینے والا ۔ غمِ پنہاں : چھپا ہوا دکھ ۔ آہِ سرد: ٹھنڈی آہ جو غم کی نشانی ہے ۔
مطلب: سو میری بات سن کر وہ مسلمان مضطرب ہو گیا اور ایک سرد آہ نے اس کے سینے میں پوشیدہ غم کو ظاہر کر دیا ۔

 
کہنے لگا کہ دیکھ تو کیفیتِ خزاں
اوراق ہو گئے شجرِ زندگی کے زرد

معانی: کیفیت: حالت ۔ اوراق: جمع ورق، درخت کے پتے ۔ شجر: درخت ۔
مطلب: وہ مجھ سے کہنے لگا کہ اے اقبال تو نے جو امت کے زوال کا ذکر کیا ہے تو وہ کیفیت بھی دیکھ لے جس سے مسلمان دوچار ہیں زندگی کو اگر ایک درخت سے تعبیر کر لیا جائے تو یہ بھی دیکھ لے کی اس درخت کے پتے مرجھا کر سوکھ چکے ہیں ۔

 
خاموش ہو گئے چمنستاں کے رازدار
سرمایہَ گداز تھی جن کی نوائے درد

معانی: سرمایہ: پونجی ۔ گداز: پگھلنے یا پگھلانے کی کیفیت ۔ نوائے درد: مراد ایسا بیان جس میں تاثیر تھی ۔
مطلب: اے اقبال وہ لوگ جو ملت اسلامیہ کے بہی خواہ و رازدار تھے اور جن کی پرسوز اور درد بھری آواز ہمارے دلوں کو متاثر کرتی تھی اور پگھلا کر رکھ دیتی تھی وہ ہمیشہ کے لئے خاموشی اختیار کر گئے ۔

 
شبلی کو رو رہے تھے ابھی اہلِ گلستاں
حالی بھی ہو گیا سوئے فردوس رہ نورد

معانی: اہلِ گلستاں : قوم کے افراد ۔ سوئے فردوس: جنت کی طرف ۔ رہ نورد: مسافر، راستہ چلنے والا ۔
مطلب: شبلی کی وفات نے ہمارے دلوں کو ریزہ ریزہ کر کے رکھ بھی دیا تھا اور اس المیے پر آنسو بہا رہے تھے کہ مولانا حالی بھی اس دنیا سے کوچ کر کے جنت کو سدھار گئے ۔

 
اکنوں کرا دماغ کہ ُپرسد ز باغباں
بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد

مطلب: اب کسے اتنا ہوش ہے کہ وہ مالی سے پوچھے کہ بلبل نے کیا کہا اور پھول نے کیا سنا اور صبح کی ہوا نے کیا کیا ۔