Please wait..

(۶)

 
انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں

معانی: انوکھی وضع: نرالی شکل و صورت ۔ بستی: آبادی، شہر ۔
مطلب: اس غزل کے مطلع میں اقبال کہتے ہیں کہ یہ جو حاملان عشق و محبت ہیں اپنی وضع قطع کے اعتبار سے انہوں نے خود کو باقی دنیا کے لوگوں سے الگ تھلگ کیا ہوا ہے ۔ ان کو دیکھنے پر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ نہ جانے یہ لوگ کس دنیا کے باشندے ہیں کہ ان کے طور طریقے تو دوسروں سے قطعی طور پر مختلف نظر آتے ہیں ۔

 
علاجِ درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں
جو تھے چھالوں میں کانٹے نوکِ سوزن سے نکالے ہیں

معانی: درد: مراد عشق کا دکھ ۔ نوکِ سوزن: سوئی کا سرا ۔
مطلب: اپنے دکھ درد کے علاج کے دوران میں اس لذت کو نظر انداز نہیں کر سکتا جو درد میں ہوتی ہے ۔ اسی سبب اپنے پاؤں کے آبلوں میں سے کانٹے نکالنے ہوں تو اس کے لیے بھی سوئی کا استعمال کرتا ہوں جس سے بے شک تکلیف تو ہوتی ہے لیکن اس میں بھی یک گونہ لذت کا احساس ہوتا ہے ۔

 
پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں

معانی: پھلا پھولا: سرسبز ۔ جگر کا خون دینا: بہت غم اٹھانا ۔ بوٹے پالنا: پودوں کی پرورش کرنا ۔
مطلب: اے خدائے ذوالجلال! تجھ سے بس اتنی دعا ہے کہ میری آرزووَں اور تمناؤں کو پھلا پھولا رکھ ۔ اس لیے کہ ان کی پرورش کے لیے میں نے اپنا خون دیا ہے ۔

 
رُلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا، نرالے میرے نالے ہیں

معانی: نرالا: سب سے الگ ۔
مطلب: راتوں میں جب میں ستاروں کو سناٹے کے عالم میں خاموش دیکھتا ہوں تو یہ صور تحال میرے لیے دل شکستگی اور آہ و زاری کا سبب بن جاتی ہے ۔ میرے نزدیک ستاروں کی یہ خامشی کسی دکھ کے سبب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میری سوچ دوسرے لوگوں سے مختلف ہے کہ اظہار عشق میں میں بھی ہائے وائے کرنے کی بجائے خامشی کا قائل ہوں ۔

 
نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں

معانی: خانماں برباد: جس کا گھر بار تباہ ہو ۔ نشیمن: گھونسلا ۔ سیکڑوں : بہت سے ۔ پھونک ڈالنا: جلا دینا ۔
مطلب: حقیقت یہ ہے کہ میری تباہی میں کسی دوسرے کا ہاتھ نہیں ۔ اس کے برعکس میں نے تو خود ہی اپنے آپ کو تباہ و برباد کیا ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اپنے لیے سیکڑوں ٹھکانے بنائے اور بعد میں خود ہی ان کو نذر آتش کر دیا ۔ یہ بربادی تو خود لذتیت کی مظہر ہے ۔

 
نہیں بیگانگی اچھی رفیقِ راہِ منزل سے
ٹھہر جا اے شرر ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں

معانی: بیگانگی: غیر ہونا ۔ رفیق راہِ منزل: مراد سفر کا ساتھی ۔ ٹھہر جا: رک جا ۔ شرر: چنگاری ۔ مٹنے والا: فنا ہونے والا ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال انسان کی عمر فانی کے اختصار کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے ایک چنگاری کے مانند قرار دیتے ہیں کہ جس طرح آگ کی ایک چنگاری لمحے بھر کے لیے اپنے وجود کا احساس دلا کر پھر ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتی ہے اسی طرح انسانی زندگی بھی ہے ۔ مصرعہ اولیٰ میں وہ چنگاری کو خطاب کرتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں کہ جب ہم انسان اور تو یکساں خصوصیت کے حامل ہیں تو تیرے لیے یہ لازم نہیں کہ ہم سے بیگانگی کا اظہار کرے ۔ تیری اور ہم انسانوں کی عمر قریب قریب یکساں ہی ہے ۔

 
اُمیدِ حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولے بھالے ہیں

معانی: امید: مراد خواہش ۔ واعظ: مسجد میں وعظ کرنے والا ۔ سیدھا سادہ: بھولا بھالا، جسے کوئی تجربہ نہ ہو ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ یہ حضرت واعظ جو بظاہر سیدھے سادے اور بھولے بھالے نظر آتے ہیں عملاً یہ بڑے چالاک اور کائیاں ہیں ان کے ذہن میں تو ہر لمحے جنت کی حوروں کا تصور رقصاں رہتا ہے اور حوروں کے اس تصور نے ہی عملی سطح پر انہیں دنیاوی مسائل کے بارے میں بہت کچھ سکھا دیا ہے ۔ ان کی یہ جو خاموشی ہے وہ ایک طوفان کی سی حیثیت رکھتی ہے ۔

 
مرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں

معانی: اشعار: شعر کی جمع ۔ ٹوٹا ہوا دل: محبت میں مایوسی کا شکار دل ۔ درد انگیزنالے: درد بھرے گیت ۔
مطلب: غزل کے مقطع میں اقبال خود کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے اشعار مجھ کو اتنے پیارے اور جان و دل سے زیادہ عزیز کیوں نہ ہوں اس لیے کہ یہ تو میرے دل شکستہ کے درد انگیز نالوں کی مانند ہیں ۔