Please wait..

(10)

 
دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے

معانی: سوز: تپش، مراد ایمان ۔ بے باک: بے خوف ۔
مطلب: مسلمانوں میں اس لیے جرات اظہار اور ہمت کی کمی ہے کہ وہ سوز عشق سے بھی محروم ہیں اور ان کی نظریں بھی شفاف اور حقیقت شناس نہیں ۔ بالفاظ دگر اس مسئلے پر کسی حیرت کی گنجائش نہیں کہ جب انسان عشق حقیقی سے محروم ہو کر مادی آلائشوں میں گھر کر رہ جائے تو وہ فطری امر ہے کہ اس میں جرات و ہمت باقی نہیں رہتی اور وہ محض ذاتی اغراض اور مصلحتوں کا شکار ہو کر بزدل بن جاتا ہے ۔

 
ہے ذوقِ تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل! تو نرا صاحبِ ادراک نہیں ہے

معانی: ذوقِ تجلی: چمکنے کا شوق ۔ ادراک: سمجھ بوجھ ۔
مطلب: یہ درست ہے کہ فہم و ادراک بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں لیکن عشق حقیقی کی تجلی کے بغیر فہم و ادراک کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ۔ یہ ساری حقیقتیں اور جذبے مربوط ہو کر انسان کو انسان بناتے ہیں ۔

 
وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن
پُرکار و سخن ساز ہے نمناک نہیں ہے

معانی: وہ لوگ جو مغربی تہذیب کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں وہ فی الواقع غلط فہمی کا شکار ہیں اس لیے کہ مغربی تہذیبی چالاکی، مکاری اور اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے تو مواقع فراہم کرتی ہے لیکن اس وقت تک انسان کی تکمیل نہیں ہوتی جب تک کہ وہ عشق حقیقی سے آشنا نہ ہو اور اس کا دل سوز و گداز سے محروم ہو ۔

 
کیا صوفی و مُلّا کو خبر میرے جنوں کی
اُن کا سرِ دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے

مطلب: اقبال فرماتے ہیں کہ صوفی ملا تو ذات الہٰی کے عرفان اور عشق حقیقی سے یکسر محروم ہو چکے ہیں ۔ ملت اسلامیہ کو جو مسائل درپیش ہیں اور جن خطرات میں مسلمان گرفتار ہیں یہ بے حس اور نافہم لوگ اس صورت حال کا ادراک نہیں رکھتے پھر وہ میری قلبی کیفیت سے کس طرح آگاہ ہو سکتے ہیں ۔ وہ تو مادی مفادات کے حصول میں مصروف ہیں ۔ قوم کو آپس میں چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھانا ان کا کام ہے ۔ ملت کی تعمیر و ترقی کے لیے تو قربانی دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور جذبہَ قربانی سے ان کا دل یکسر خالی ہے ۔

 
کب تک رہے محکومیِ انجم میں مری خاک
یا میں نہیں ، یا گردشِ افلاک نہیں ہے

معانی: محکومیِ انجم: تاروں کی غلامی ۔
مطلب: نجوم اور گردش افلاک کے زیر اثر رہنے کی علامتوں کے حوالے سے اقبال نے اس شعر میں دراصل غیروں کی غلامی اور اس سے آزادی کے مسئلے پر بات کی ہے ۔ جن دنوں یہ اشعار کہتے تھے تو ہندوستان انگریز کا غلام تھا اور اس کے جبر و استبداد سے رہائی کے لیے یہاں مختلف حلقوں سے آزادی کی تحریکوں کا آغاز ہو چکا تھا ۔ علامہ نے اسی پس منظر میں یہ شعر کہا ہے کہ اب تو نوبت اس مرحلے پر آ پہنچی ہے کہ یا تو اہل وطن خود کو ختم کر لیں یا پھر انگریز کو ختم کر دیں ۔

 
بجلی ہوں نظر کوہ و بیاباں پہ ہے میری
میرے لیے شایاں خس و خاشاک نہیں ہے

معانی: کوہ و بیاباں : پہاڑ اور جنگل ۔ خس و خاشاک: کوڑا کرکٹ ۔
مطلب: اس شعر میں وہ فرماتے ہیں کہ میں تو ایک ایسی برق کے مانند ہوں جو جنگل ، چٹانوں اور پہاڑوں پر گر کر ان کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے ۔ محض کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کو جلانا میرا مسلک نہیں ۔ مراد یہ ہے کہ انتقام لینا ہو تو بڑی قوت رکھنے والوں سے لو ۔ معمولی اور مسکین لوگوں سے تصادم تو بے معنی سی بات ہے کمزور لوگوں کے خلاف کوئی اقدام، حوصلہ مند لوگوں کا مسلک نہیں ۔

 
عالم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے

مطلب: یہ کائنات تو محض ایسے مومن کی میراث ہے جو اپنی جان پر کھیل جانے کا حوصلہ رکھتا ہے اور مومن کی تعریف یہ ہے کہ جو حضور پیغمبر اسلام کے اسوہ حسنہ سے قلب و روح کو منور کرے اور اس طرح وہ مقام لولاک کا فیضان حاصل کر لے ۔ وضاحت کے لیے یہاں ایک حدیث قدسی کا ذکر ناگزیر ہے جس کے مطابق ارشاد باری تعالیٰ ہے لو لاک لما خلقت افلاک، یعنی اے محمد اگر تو نہ ہوتا تو میں یہ آسمان ہی پیدا نہ کرتا ۔ اس شعر میں جو پس منظر ہے وہ عملاً مومن کی تعریف اور اس کے مقام سے مطابقت رکھتا ہے ۔ مراد یہ کہ مومن نہ صرف یہ کہ جانباز و حوصلہ مند ہوتا ہے بلکہ رسول مقبول کی تعلیمات سے اس کا سینہ بھی روشن ہوتا ہے ۔