(39)
تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سحرِ قدیم گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوبِ کلیم
معانی: سحر: جادو ۔ قدیم: پرانا ۔ چوبِ کلیم: عصائے موسیٰ ۔
مطلب: عہد جدید کی سائنس اور فلسفے کی بنا پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ دور قدیم پھر سے رونما ہو گیا ہے ۔ اس کی مثال حضرت موسیٰ اور فرعون کے دور سے دی جا سکتی ہے کہ اس زمانے میں ساحروں نے اپنے فن میں کمال حاصل کر لیا تھا ۔ فرعون نے حضرت موسیٰ کے خلاف ان ساحروں کو استعمال کیا لیکن انھوں نے عصائے موسوی سے فرعون اور اس کے ساحروں کا تمام طلسم بے کار کرکے رکھ دیا ۔ آج کے سائنس و فلسفے کی تباہ کاریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بقول اقبال عصائے موسوی کی ضرورت ہے ۔
عقل عیاّر ہے سو بھیس بنا لیتی ہے عشق بے چارہ نہ ملا ہے، نہ زاہد نہ حکیم
معانی: ملا، زاہد اور اہل دانش اپنی عقل کی عیاری کے سبب حسب ضرورت رنگ بدلتے رہتے ہیں ۔ ان کے برعکس عشق کا جذبہ سادگی کا مظہر ہے جسے فریب کاری نہیں آتی ۔
عیشِ منزل ہے غریبانِ محبت پہ حرام سب مسافر ہیں بظاہر، نظر آتے ہیں مقیم
معانی: عیشِ منزل: راستے ہی میں آرام کے لیے ٹھہر جانا ۔ غریبانِ محبت: محبت کے مسافر ۔
مطلب: محبت کرنے والے لوگوں پر تو منزل تک پہنچنے کے لیے کسی مرحلے پر بھی ٹھہرنا حرام ہے ۔ اگر کہیں قیام بھی کریں تو بھی متحرک نظر آتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ عشق و محبت میں سکون ممکن نہیں ۔
ہے گراں سیر غمِ راحلہ و زاد سے تو کوہ و دریا سے گزر سکتے ہیں مانندِ نسیم
معانی: گراں سیر: بوجھ اٹھائے ہوئے ۔ غم راحلہ و زاد: سواری اور سفر کے خرچ کی پریشانی ۔ مانندِ نسیم: صبح کی ہوا کی طرح ۔
مطلب: انسان کو مخاطب کر کے اقبال کہتے ہیں کہ تو نے منزل تک رسائی کے لیے سواری اور زاد راہ کا بار اٹھا رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تیری رفتار سست ہو گئی ہے اور جو زادراہ سے بے نیاز ہوتے ہیں وہ کسی تاخیر کے بغیر پہاڑوں اور دریاؤں کو بھی پار کر جاتے ہیں ۔
مردِ درویش کا سرمایہ ہے آزادی و مرگ ہے کسی اور کی خاطر یہ نصابِ زر وسیم
معانی: نصابِ زر: سونے چاندی کا حساب ۔
مطلب: مردِ درویش تو آزادانہ زندگی گزارنے کا قائل ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ انجام تو بالاخر موت ہی ہوتا ہے لیکن جو دنیا دار لوگ ہیں وہی مال و دولت اور سونے چاندی جمع کرنے کی ہوس رکھتے ہیں ۔ آزاد زندگی کا تصور ان کے لیے ثانوی حیثیت رکھتا ہے ۔