گُلِ پژمردہ
کس زبان سے اے گلِ پژمردہ تجھ کو گل کہوں کس طرح تجھ کو تمنائے دلِ بلبل کہوں
معانی: گُلِ پژمردہ: مرجھایا ہوا پھول، مراد انسانی روح جو اپنی اصل سے جدا ہو گئی ہے ۔ کس زباں سے کہوں : یعنی زبان میں بیان کی قوت نہیں ۔ تمنائے دلِ بلبل: بلبل کے دل کی آرزو مراد بلبل کا محبوب ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال کا مکالمہ ایک ایسے پھول سے ہوتا ہے جو مرجھا چکا ہے اور اس طرح اپنی تازگی کے علاوہ آب و تاب بھی کھو چکا ہے ۔ چنانچہ اس مرجھائے ہوئے پھول سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اب تیری ہیَت ہی تبدیل ہو چکی ہے ۔ اس صورت میں تجھے پھول قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ اس کیفیت میں تو تو بلبل کے لیے بھی کشش کا سبب نہیں ہو سکتا ۔
تھی کبھی موجِ صبا گہوارہَ جنباں ترا نام تھا صحنِ گلستاں میں گلِ خنداں ترا
معانی: موجِ صبا: صبح کی ہوا کی لہر ۔ گہوارہَ جُنباں : ہلتا ہوا گہوارہ، جھولا ۔ گلِ خنداں : ہنستا ہوا پھول ۔
مطلب: میں اس دور کو یاد کرتا ہوں کہ موج صبا تجھے ہلکارے دیا کرتی تھی اور اس کی آغوش تیرے لیے ہلتے ہوئے گہوارے کی مانند ہوا کرتی تھی اور باغ میں تیرا وجود مسکاہٹوں کا آئینہ دار رہتا ۔
تیرے احساں کا نسیمِ صبح کو اقرار تھا باغ تیرے دم سے گویا طبلہَ عطار تھا
معانی: نسیمِ صبح: صبح کی نرم ہوا ۔ تیرے دم سے: تیری وجہ سے ۔ طبلہَ عطار: عطر بیچنے والے کا خوشبووَں سے بھرا ہوا ڈبہ ۔
مطلب: صبح کی نسیم تیری خوشبو سے معطر ہوتی تھی اور یہ خوشبو پھر سارے گلستاں کو معطر کر دیتی تھی ۔
تجھ پہ برساتا ہے شبنم دیدہَ گریاں مرا ہے نہاں تیری اُداسی میں دلِ ویراں مرا
معانی : شبنم برسانا: آنسو بہانا ۔ دیدہَ گریاں : روتی ہوئی آنکھیں ۔ نہاں : چھپا ہوا ۔ دلِ ویراں : مراد افسردہ دل ۔
مطلب: آج تیری صورت دیکھ کر اے مرجھائے ہوئے پھول میری آنکھوں سے آنسو رواں ہیں ۔ اور یوں لگتا ہے کہ تیری اداسی میں میرا دل ویران پوشیدہ ہے ۔
میری بربادی کی ہے چھوٹی سی اک تصویر تو خواب میری زندگی تھی جس کی ہے تعبیر تو
معانی: تعبیر: خواب کا مطلب ۔
مطلب: دیکھا جائے تو تیرا وجود میری بربادی کی ایک چھوٹی سی تصویر ہے جس شے کی میری زندگی ایک خواب تھی بظاہر یوں لگتا ہے تو اس خواب کی تعبیر ہے ۔
ہمچو نَے از نیستانِ خود حکایت می کنم بشنو اے گل! از جدائی ہا شکایت می کنم
مطلب: میں بانسری کی طرح اپنے بانسوں کے جنگل کی داستاں بیان کر رہا ہوں ۔ اے پھول تو سُن، میں اپنی اصل سے دُور رہنے کی شکایت کر رہا ہوں ۔