انسان اور بزمِ قدرت
صبحِ خورشید درخشاں کو جو دیکھا میں نے بزمِ معمورہَ ہستی سے یہ پوچھا میں نے
معانی: بزم قدرت: قدرت کی محفل، مراد یہ کائنات ۔ خورشیدِ درخشاں : چمکتا ہوا سورج ۔ معمورہَ ہستی: مراد آباد دنیا ۔
مطلب: اس نظم کا اگر گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو اس امر کا اندازہ ممکن ہے کہ علامہ نے یہاں پہلی بار فلسفہ خودی کی نشاندہی کی ہے اور یہی فلسفہ آگے جا کر ان کی شاعرانہ فکر کا بنیادی مرکز بنا ۔ چنانچہ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ چمکتے ہوئے سورج کے لمحات میں جب میں نے صبح کے وقت کا نظارہ کیاتو اس کائنات سے استفسار کیا جس میں خود میری ذات بھی موجود ہے ۔
پرتوِ مہر کے دَم سے ہے اجالا تیرا سیمِ سیال ہے پانی تیرے دریاؤں کا
معانی: پرتوِ مہر: سورج کی روشنی ۔ دم: وجہ، سبب ۔ سیم سیال: بہتی ہوئی چاندی ۔
مطلب: کہ تجھ میں جو اجالا ہے وہ اسی سورج کی روشنی کے سبب ہے اور تیرے دریاؤں کا چاندی کے مانند شفاف پانی بھی اسی کے دم سے ہے ۔
مہر نے نور کا زیور تجھے پہنایا ہے تیری محفل کو اسی شمع نے چمکایا ہے
معانی: محفل کو چمکانا: محفل روشن کرنا، رونق کا سبب بننا ۔
مطلب: یہ سورج ہی ہے جس نے تجھے نور کا زیور پہنایا ہے اور اسی سورج کا وجود تیری بزم میں ایک روشن شمع کے مانند ہے
گل و گلزار ترے خلد کی تصویریں ہیں یہ سبھی سورہَ والشّمس کی تفسیریں ہیں
معانی: خلد: بہشت ۔ سورہَ والشمس: پارہ کی ایک سورہ جس کا آغاز والشمس سے ہوتا ہے یعنی اللہ نے سورج کی قسم کھائی ہے ۔
مطلب: اے کائنات یہ جو تیرے دامن میں گل و گلزار ہیں وہ بہشت کا منظر پیش کرتے ہیں یوں لگتا ہے کہ یہ سب قرآن کریم کے سورہ والشمس کی تفسیریں ہیں ۔
سُرخ پوشاک ہے پھولوں کی، درختوں کی ہری تیری محفل میں کوئی سبز، کوئی لال پری
مطلب: مذکورہ باغات میں جو پھول اور اشجار موجود ہیں علی الترتیب ان کا لبادہ سرخ اور سبز رنگ کا ہے بالکل اسی طرح جیسے کہ تیری محفل میں کوئی سبز پری اور کوئی لال پری ہو ۔
ہے ترے خیمہَ گردوں کی طلائی جھالر بدلیاں لال سی آتی ہیں اُفق پر جو نظر
معانی: خیمہَ گردوں : آسمان کا خیمہ، مراد آسمان ۔
مطلب: اے دنیا تیرا جو آسمان ہے وہ ایسے خیمے کی طرح سے ہے جس کے گرد سنہری جھالر لٹک رہے ہوں اور افق پر جو سرخی مائل بدلیاں دکھائی دیتی ہیں ۔
کیا بھلی لگتی ہے آنکھوں کو شفق کی لالی مئے گلِ رنگ خمِ شام میں تُو نے ڈالی
معانی: افق: آسمان کا دور کا کنارہ ۔ لالی: سرخی ۔ مئے گلرنگ: سرخ رنگ کی شراب ۔ خمِ شام: شام کا مٹکا ۔
مطلب: ان کے ساتھ شفق کی سرخی انتہائی بھلی لگتی ہے جس کے سبب شام کا وقت بھی سرخی مائل دکھائی دیتا ہے ۔
رتبہ تیرا ہے بڑا، شان بڑی ہے تیری پردہَ نور میں مستور ہے ہر شے تیری
معانی: مستور: چھپی ہوئی ۔ سطوت: شان و شوکت، دبدبہ ۔
مطلب: اے دنیا تیرا مرتبہ بہت بلند ہے اور تیری شان بھی بڑی ہے ۔ اسی لیے تیرے دامن میں جو بھی چیز موجود ہے وہ نور کے پردے میں چھپی ہوئی ہے ۔
صبح اک گیت سراپا ہے تری سطوت کا زیرِ خورشید نشاں تک بھی نہیں ظلمت کا
معانی: سطوت: شان و شوکت ۔ ظلمت: تاریکی، اندھیرا ۔
مطلب: صبح کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی تیری عظمت کے گیت گا رہی ہے اور جہاں تک خورشید کا تعلق ہے تو اس کے منظر نامے میں تاریکی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔
میں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی میں مگر جل گیا پھر مری تقدیر کا اختر کیوں کر
معانی: اختر: ستارہ ۔ کیونکر: کس طرح ۔
مطلب: تیری اس نور کی بستی میں ہر چند کہ میں بھی رہائش پذیر ہوں لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ میری قسمت کا ستارہ روشنی سے محروم ہے ۔
نور سے دُور ہوں ، ظلمت میں گرفتار ہوں میں کیوں سیہ روز، سیہ بخت ، سیہ کار ہوں میں
معانی: سیہ روز: جس کا دن تاریک ہو، بدقسمت ۔
مطلب: تیری ان روشنیوں سے دور ہوتے ہوئے میرا وجود ظلمت کے محبس میں ایک قیدی کے مانند ہے چنانچہ میں تجھ سے پوچھتا ہوں کہ پھر کیا وجہ ہے کہ میں ہی تیرے دامن میں رہتے ہوئے بدنصیبی اور بدقسمتی کا شکار ہوں ۔
میں یہ کہتا تھا کہ آواز کہیں سے آئی بامِ گردوں سے وہ یا صحنِ ز میں سے آئی
معانی: بامِ گردوں : آسمان کی چھت ۔
مطلب: میں ابھی اپنے انہی خیالات میں گم تھا کہ معاً کہیں سے میرے کانوں میں آواز آئی تا ہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ آواز آسمان سے یا پھر زمین سے بلند ہوئی ۔
ہے ترے نور سے وابستہ مری بود و نبود باغباں ہے تری ہستی پےَ گلزارِ وجود
معانی: وابستہ: بندھی ہوئی ۔ بود و نبود: ہونا یعنی ہستی اور نہ ہونا یعنی نیستی ۔ پےَ گلزارِ وجود: ہستی کے باغ کے لیے ۔
مطلب: اے انسان! اس حقیقت کو جان لے کہ کائنات کا عدم یا وجود صبح دم طلوع ہوتے ہوئے سورج کے دم سے نہیں بلکہ تیری ذات سے ہے کہ تیری ہی ذات ہے جو میرے گلستاں کے لیے ایک باغبان کی مانند ہے ۔
انجمن حُسن کی ہے تو، تری تصویر ہوں میں عشق کا تو ہے صحیفہ، تری تفسیر ہوں میں
معانی: صحیفہ: کتاب ۔
مطلب: اے انسان! تیرا وجود ہی ہر نوع کی خوبصورتیوں کا مجموعہ ہے اور جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو ان خوبصورتیوں اور مظاہر فطرت کے عکس کی طرح ہوں تو ہی عشق کا وہ صحیفہ ہے جس کی تفسیر میری ذات ہے ۔
میرے بگڑے ہوئے کاموں کو بنایا تو نے بار جو مجھ سے نہ اٹھا وہ اٹھایا تو نے
معانی: بگڑے کا م بنانا: جو کام غلط ہوئے ہوں انھیں ٹھیک کرنا ۔
مطلب: تو ہی ہے جس نے میرے بگڑے ہوئے کاموں کی مثبت انداز میں تکمیل کی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اس کارکردگی کے ضمن میں جو بوجھ میں نہ اٹھا سکی وہ تو نے ہی اٹھایا ہے ۔
نورِ خورشید کی محتاج ہے ہستی میری اور بے منتِ خورشید چمک ہے تیری
معانی: بے منتِ خورشید: سورج کے احسان کے بغیر ۔
مطلب: جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے دیکھا جائے تو وہ سورج کی روشنی کی محتاج ٹھہرتی ہے جب کہ تجھ میں جو چمک اور تابندگی ہے اس کے لیے سورج کی روشنی قطعی طور پر درکار نہیں ۔
ہو نہ خورشید تو ویراں ہو گلستاں میرا منزلِ عیش کی جا نام ہو زنداں میرا
معانی: ویراں : ایسی جگہ جہاں کوئی آبادی وغیرہ نہ ہو ۔ منزلِ عیش کی جا: عیش کے ٹھکانے کی بجائے ۔ زنداں : قید خانہ ۔
مطلب: اگر سورج کا وجود نہ ہو تو میرا گلستاں اور میری ہستی ایک ویران صحرا میں تبدیل ہو کر رہ جائے اس کے برعکس تیری ذات سورج کے کسی جوہر کی محتاج نہیں ۔ سورج کے بغیر تو میرے تمام عشرت کدے، عملاً زندانوں میں تبدیل ہو کر رہ جائیں ۔
آہ، اے رازِ عیاں کے نہ سمجھنے والے حلقہَ دامِ تمنّا میں الجھنے والے
معانی: رازِ عیاں : کھلا بھید ۔ حلقہَ دامِ تمنا: آرزو کے جال کا حلقہ ۔ الجھنے والا: پھنسنے والا ۔
مطلب: افسوس! اے انسان تو اس راز کو بھی نہ سمجھ سکا جو عملاً بالکل واضح ہے ۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ تو خود ہی اپنی خواہشوں کے دام میں الجھ کر رہ گیا ہے ۔
ہائے غفلت کہ تری آنکھ ہے پابندِ مجاز ناز زیبا تھا تجھے، تو ہے مگر گرمِ نیاز
معانی: پابند مجاز: غیر حقیقی باتوں کو دیکھنے کی عادی ۔ زیبا: مراد مناسب، لائق ۔ گرم نیاز: انکسار میں مصروف ۔
مطلب: یہ کیسی غفلت ہے اور مقام افسوس بھی ہے کہ تیری آنکھ محض ظاہر پرست ہے اور اس کے ساتھ ہی حقائق سے نا آشنا بھی ہے ۔
تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے نہ سیہ روز رہے پھر، نہ سیہ کار رہے
مطلب: آخری بات یہ ہے کہ اگر تو اپنی حقیقتوں کا پوری طرح ادراک کر لے تو اس کے بعد تیری بدبختی اور بدنصیبی ختم ہو کر رہ جائے ۔