Please wait..

کفر و اسلام
(تضمین بر شعرِ میر رضی دانش)

 
ایک دن اقبال نے پوچھا کلیمِ طور سے
اے کہ تیرے نقشِ پا سے وادیِ سینا چمن

معانی: دانش: میر رضی ، دانش تخلص، مشہد کا رہنے والا تھا ۔ شاہ جہان بادشاہ کے دور میں ہندوستان آیا ۔ دارالشکوہ کی ملازمت میں رہا ۔ کلیمِ طور: مراد حضرت موسیٰ کلیم اللہ ۔ نقشِ پا: پاؤں کے نشان ۔ وادیِ سینا: اس پہاڑ کی وادی جہاں حضرت موسیٰ نے خدا کا جلوہ دیکھا ۔
مطلب: ایک روز اقبال نے حضرت موسیٰ سے استفسار کیا کہ بے شک آپ کے نقش قدم کی بدولت وادی سینا گلستان بنی ہوئی ہے ۔

 
آتشِ نمرود ہے اب تک جہاں میں شعلہ ریز
ہو گیا آنکھوں سے پنہاں کیوں ترا سوزِ کہن

معانی: نمرود کی جلائی ہوئی آگ، مراد کفر اور باطل ۔ شعلہ ریز: شعلے گرانے والی یعنی کفر و باطل برقرار ہیں ۔ پنہاں : چھپا ہوا ۔ سوزِ کہن: پرانی تپش پرانا جلوہ ۔
مطلب: لیکن اتنا تو بتائیے کہ ابھی تک دنیا میں آتش نمرود بھڑک رہی ہے ۔ آخر آپ کا وہ نور کہاں گیا جو کفر و باطل کو جلا کر خاک کر دینے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔

 
تھا جوابِ صاحبِ سینا کہ مسلم ہے اگر
چھوڑ کر غائب کو تو حاضر کا شیدائی نہ بن

معانی: صاحبِ سینا: مراد حضرت موسیٰ ۔ غائب: جو موجود نہ ہو ۔ حاضر: جو موجود ہو ۔ شیدائی: عاشق ۔
مطلب: میرے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ اگر تو مسلمان ہے تو غائب کو چھوڑ کر سامنے موجود چیزوں کا عاشق نہ بن کہ غائب وجود تو ذات باری تعالیٰ کا ہے ۔

 
ذوقِ حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمانِ خلیل
ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن

معانی: ذوقِ حاضر: موجود کا شوق یعنی موجودہ دنیا کے معاملات ۔ ایمانِ خلیل: حضرت ابراہیم کا سا ایمان ۔ جو نمرود کی بھڑکائی ہوئی آگ میں بیٹھ گئے اور وہ بحکم خداوندی گلزار بن گئی ۔ خاکستر: راکھ ۔ پیرہن: لباس ۔
مطلب: پھر بھی حاضر اشیاَ کا زیادہ ذوق رکھتا ہے تو پھر حضرت ابراہیم جیسے پیغمبر کی صفات کا موجود ہونا ضروری ہے ۔ سطحی نظر سے کسی شے کو دیکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ ورنہ تیرا عقیدہ تباہی کا سبب بن جائے گا ۔

 
ہے اگر دیوانہَ غائب تو کچھ پروا نہ کر
منتظر رہ وادیِ فاراں میں ہو کر خیمہ زن

معانی: دیوانہ: مجنوں ۔ وادیِ فاراں : عرب کی وہ پہاڑی جہاں سے اسلام کا ظہور ہوا، مراد کعبہ ۔ خیمہ زن: تنبو لگانے والا، مرا بیٹھنے والا ۔
مطلب : اے اقبال اگر تو غائب یعنی خالق حقیقی کا پیروکار ہے تو تجھے ہر شے سے بے نیاز ہو جانا چاہیے بلکہ اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر حالات کے بدلنے کا انتظار کر ۔

 
عارضی ہے شانِ حاضر، سطوتِ غائب مدام
اس صداقت کو محبت سے ہے ربطِ جان و تن

معانی: عارضی: وقتی، تھوڑی دیر کی ۔ شانِ حاضر: آنکھوں کے سامنے موجود کی عزت و شوکت ۔ سطوت : دبدبہ، شان ۔ مدام: ہمیشہ ہمیشہ کی ۔ محبت: جذبہ عشق ۔ ربطِ جان و تن: جسم اور جان کے تعلق جیسا ۔
مطلب: اس حقیقت کو ذہن نشین کر لے کہ کائنات میں موجود اشیا کی شان اور افادیت محض عارضی حیثیت کی حامل ہے اور غائب کی شان مستقل حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ ایک سچائی ہے جس کا تعلق باری تعالیٰ کی ذات سے ہے ۔

 
شعلہَ نمرود ہے روشن زمانے میں تو کیا
شمع خود را می گدازد درمیانِ انجمن
نورِ ماچوں آتشِ سنگ از نظر پنہاں خوش است

مطلب : بالفرض زمانے میں شعلہ نمرود روشن ہے یعنی کفر و باطل کا دور دورہ ہے تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ باطل بھی شمع کی مانند بقول میر رضی دانش پھیل کر ختم ہو جائے گا ۔ جب کہ حق و صداقت کا نور پتھر کی آگ کی طرح نظروں سے اوجھل ہے اور اس کا اوجھل رہنا ہی بہتر ہے ۔