Please wait..

ہمالہ

 
اے ہمالہ اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں 
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں 

معانی: ہمالہ: برصغیر پاک و ہند کا مشہور پہاڑ، ہمالیہ ۔ فصیل: شہر کی چاردیواری ۔ کشور: ملک ۔
مطلب: اقبال کوہ ہمالہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تو وہ بلند و بالا پہاڑ ہے جو نہ صرف یہ کہ مملکت ہندوستان کے محافظ اور فصیل کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ تیری چوٹیوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ آسمان بھی جھک کر چوم رہا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ تیری بلندی آسمان سے بھی قربت رکھتی ہے ۔

 
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں 
تو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں 

معانی: دیرینہ روزی: بہت پرانے زما نے کا ہونا ۔ جواں ہے: مراد حالت جوں کی توں ہے ۔ گردشِ شام و سحر: یعنی وقت کا چکر، گزرنے کا عمل ۔
مطلب: اے ہمالہ تیر ا وجود ہر چند کہ ابتدائے آفرینش سے قائم ہے اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ تو اس شام و سحر کی گردش کے مابین اسی طرح زندہ و ایستادہ ہے جس طرح کہ ابتدا میں تھا اور لاتعداد صدیاں بیت جانے کے باوجود تجھ میں کسی کمزوری کے آثار نہیں پائے جاتے ۔

 
ایک جلوہ تھا کلیمِ طورِ سینا کے لیے 
تو تجلی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے 

معانی: کلیم: مراد حضرت موسیٰ ۔ طورِ سینا: وہ پہاڑ جہاں حضرت موسیٰ کو خدا کا جلوہ نظر آیا ۔ سراپا: پورے طور پر ۔ چشمِ بینا: مراد بصیرت والی آنکھ ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ صاحب کہتے ہیں کہ تیرا وجود تو ان کے لیے بھی ایک خصوصی حیثیت کا حامل ہے ۔ یہی نہیں بلکہ ہر چشم بینا کے لیے تو ایک تجلی کا مظہر ہے ۔ مراد یہ ہے کہ تیری بلندی اور سرسبز وادیاں انسان کے لیے ایک عجوبہ کی طرح ہیں ۔

 
امتحانِ دیدہَ ظاہر میں کوہستاں ہے تو 
پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندوستاں ہے تو 

معانی: دیدہ: آنکھ ۔ ظاہر بیں : صرف اوپر اوپر دیکھنے والی ۔ کوہستاں : پہاڑ ۔ پاسباں : حفاظت کرنے والا، چوکیدار ۔ دیوار: رکاوٹ جو دشمن سے حفاظت کی نشانی ۔
مطلب: یہ درست ہے اے ہمالہ تو بظاہر ایک پہاڑ ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ تو ہمارا محافظ بھی ہے اور ہندوستاں کے لیے ایک حفاظتی دیوار کی حیثیت رکھتا ہے ۔

 
مطلعِ اول فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو 
سوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تو 

معانی: مطلع ِ اول: غزل کا پہلا شعر ۔ سوئے خلوت گاہ: تنہائی کی جگہ کی طرف ۔ دامن کش: مراد اپنی طرف توجہ دلانے والا ۔
مطلب: اگر تجھے ایک شاعر کا دیوان تصور کر لیا جائے تو اس کا مطلع یعنی اولین شعر آسمان کو تسلیم کرنا پڑے گا ۔ تیرا وجود تو ہر انسان کے لیے باعث کشش ہے جس کی قربت اسے سکون فراہم کرتی ہے ۔

 
برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سَر 
خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر 

معانی: دستارِ فضیلت: بڑائی، عظمت کی پگڑی ۔ خندہ زن ہے: مرا د مذاق اڑا رہی ہے ۔ مہر: سورج ۔ عالم تاب: دنیا کو روشن کرنے والا ۔
مطلب: تیر ی سطح اور چوٹیوں پر جو برف پڑی رہتی ہے وہ اس سفید رنگ کی دستار فضیلت کے مانند ہے جو بزرگوں کے سروں پر احتراماً باندھی جاتی ہے ۔ یہ دستارِ فضیلت تو سورج کی زریں کلاہ پر بھی خندہ زن نظر آتی ہے ۔

 
تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کہن 
وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن 

معانی: عمرِ رفتہ: گزری ہوئی عمر، زندگی ۔ عہدِ کہن: پرانا، قدیم زمانہ ۔ خیمہ زن: خیمہ لگائے ہوئے، پڑاوَ ڈالے ہوئے ۔
مطلب: اے ہمالہ! تیری گزری ہوئی عمر کا دور اس قدر طویل ہے کہ عہد ماضی کی شان وشوکت کا مظہر بن گیا ہے ۔ تیری بلند و بالا چوٹیوں کا سایہ تیرے گردوپیش کی وادیوں پر اس طرح پڑ رہا ہے جیسے وہاں خیمے آویزاں ہوں ۔

 
چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرمِ سخن 
تو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن 

معانی: سخن: بات، باتیں ۔ پہنائے فلک: آسما ن کا پھیلاوَ، وسعت ۔
مطلب: یہی بلند و بالا چوٹیاں یوں لگتا ہے جیسے آسمان پر موجود ستاروں سے باتیں کر رہی ہوں ۔ یہ درست ہے کہ تو زمین پر ایستادہ ہے لیکن تیری بلندی آسمان کی وسعتوں سے ہم کنار نظر آتی ہے ۔

 
چشمہَ دامن ترا آئینہَ سیال ہے 
دامنِ موجِ ہَوا جس کے لیے رُومال ہے 

معانی: چشمہَ دامن: وادی میں بہنے والا چشمہ ۔ آئینہ سیال: چلتا، بہتا ہوا آئینہ ۔ دامن: پلو ۔ موجِ ہوا: ہوا کی لہر ۔
مطلب: تیرے دامن میں پانی کے جو چشمے رواں دواں ہیں وہ اس قدر شفاف ہیں جس طرح سیال آئینے ہوں ۔ اور یہاں جو ہوا چلتی ہے وہ ان چشموں کے پانیوں کو مزید شفاف بناتی ہے ۔

 
ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے 
تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کہسار نے 

معانی: رہوارِ ہوا: ہوا کا گھوڑا ۔ برق: بجلی ۔ سرِ کہسار: پہاڑ کے اوپر ۔
مطلب: اے ہمالہ! تیرے گردوپیش اور ماحول کو دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ یہاں جو ہوا رواں دواں ہے وہ ایک تیز گھوڑے کی مانند ہے ۔ اس کی رفتار کو مزید تیز کرنے کے لیے تیری چوٹیوں پر چمکنے والی بجلیوں نے بادلوں کے ہاتھوں میں ایک تازیانہ دے دیا ہے ۔

 
اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی، جسے 
دستِ قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے 

معانی: بازی گاہ: کھیل کا میدان ۔ دست: ہاتھ ۔
مطلب: کیا ایسا تو نہیں کہ تیرا دامن بھی ایک کھیل کے میدان کی طرح ہے ۔ ایسا میدان جسے قدرت نے خود اپنے ہاتھوں سے بڑی صناعی کے ساتھ بنایا ہے ۔

 
ہائے کیا فرطِ طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر 
فیلِ بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر 

معانی: ہائے: اس میں حیرانی کا اظہار ہے ۔ فرطِ طرب: بے حد خوشی ۔ فیل: ہاتھی ۔ بے زنجیر: جسے زنجیر نہ ڈالی گئی ہو ۔
مطلب: یہاں کس جوش و مسرت کے ساتھ بادل اس طرح محو پرواز ہیں جیسے وہ بے زنجیر ہاتھی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

 
جُنبشِ موجِ نسیمِ صبح، گہوارا بنی 
جھومتی ہے نشہَ ہستی میں ہر گل کی کلی 

معانی: موجِ نسیمِ صبح: صبح کی ہوا کی لہر ۔ گہوارا: جھولا ۔ جھومنا: خوشی یا مستی کی حالت میں سر اور ہاتھوں کو ہلانا ۔ نشہَ ہستی: زندگی کی مستی ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ یہ ایسا ماحول ہے جسکی صبح کی ہوا کی جنبش ایک گہوارے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ایسا گہوارہ جہاں کلیاں زندگی کے نشے میں جھومتی نظر آتی ہیں ۔

 
یوں زبانِ برگ سے گویا ہے اس کی خامشی 
دستِ گل چیں کی جھٹک میں نے نہیں دیکھی کبھی 

معانی: برگ: پتا ۔ گویا: بولنے والی ۔ دستِ گل چیں : پھول توڑنے والے کا ہاتھ ۔ جھٹک: ہاتھ مارنے کی حالت ۔
مطلب: یوں لگتا ہے کہ کلیوں کی خامشی اپنی پتیوں کی زبان سے یوں کہتی ہو کہ میرا تو پھول توڑنے والے سے بھی کبھی واسطہ نہیں پڑا ۔ مراد یہ ہے کہ ہمالہ کی اس بلندی تک انسان کی رسائی ممکن نہیں جہاں کلیاں کھل رہی ہیں ۔

 
کہہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ مرا 
کنجِ خلوت خانہَ قدرت ہے کاشانہ مرا 

معانی: کنج: کونہ ۔ کاشانہ: ٹھکانا ۔
مطلب: ہمالہ زبان حال سے یوں گویا ہوتا ہے کہ میری خامشی یہی دراصل میری داستان حیات کی مظہر ہے اور قدرت کا بخشا ہوا یہ گوشہ ہی دراصل میری پرسکون آماجگاہ ہے ۔

 
آتی ہے ندی فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی 
کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی 

معانی: فرازِ کوہ: پہاڑ کی چوٹی ۔ کوثر و تسنیم: بہشت کی دو ندیوں کا نام ۔
مطلب: ہمالیہ کی بلندیوں سے ندی کی شکل میں جو پانی لہریں مارتا نیچے آتا ہے اس کی آواز سننے والوں کو یوں محسوس ہوتی ہے جیسے کوئی گا رہا ہو ۔ ندی کا منظر اس درجے خوبصورت ہوتا ہے کہ کوثر و تسنیم کی موجیں بھی اس سے شرما جائیں ۔

 
آئنہ سا شاہدِ قدرت کو دکھلاتی ہوئی 
سنگِ رہ سے گاہ بچتی، گاہ ٹکراتی ہوئی 

معانی: شاہدِ قدرت: قدرت کا محبوب ۔ سنگِ راہ: راستے کاپتھر ۔ گاہ: کبھی ۔
مطلب: یوں لگتا ہے کہ یہ ندی مناظر فطرت کے مشاہدہ کرنے والے کو آئینہ دکھاتی ہوئی اپنی منزل کی طرف گامزن ہے ۔ اس کا اندازہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ راہ میں آنے والے سنگریزوں سے کبھی بچ کر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو کبھی ان سے ٹکرا بھی جاتی ہے ۔

 
چھیڑتی جا اس عراقِ دل نشیں کے ساز کو 
اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو 

معانی: عراقِ دل نشیں : مراد دل میں اثر پیدا کرنے والا راگ ۔
مطلب: تو اسی طرح دل لبھانے والی موسیقی کے ساز کو چھیڑتی جا کہ میرا دل تیری اس صدا کی معنویت سے پوری طرح آشنا ہے ۔

 
لیلیِ شب کھولتی ہے آ کے جب زلفِ رسا 
دامنِ دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا 

معانی: چھیڑنا: بجانا ۔ لیلیِ شب: رات کی لیلیٰ ۔ زلفِ رسا: لمبی اور گھنی زلفیں ، مرادرات کی تاریکی ۔
مطلب: جب رات کی محبوبہ اپنی لمبی لمبی زلفیں دراز کرتی ہے تو ان لمحات میں آبشاروں کی صدائیں انتہائی دلکش اور دلنواز محسوس ہوتی ہیں ۔

 
وہ خموشی شام کی جس پر تکلُّم ہو فدا 
وہ درختوں پر تفکّر کا سماں چھایا ہوا 

معانی: تکلم: گفتگو، بولنا ۔ تفکر: سوچ میں ڈوبے ہونے کی حالت ۔
مطلب: کہ ان لمحوں کی خامشی پر گفتگو بھی قربان کی جا سکتی ہے ۔ اس لمحے یوں لگتا ہے کہ درخت بھی کسی سوچ میں مبتلا ہیں مراد یہ ہے کہ پورا منظر خامشی اور سکوت سے ہم کنار ہے ۔

 
کانپتا پھرتا ہے کیا رنگِ شفق کہسار پر 
خوش نما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر 

معانی: شفق: صبح اور شام کی سرخی ۔ غازہ: سرخی ۔ رخسار: گال ۔
مطلب: ہمالہ پر سرشام شفق کا منظر پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فطرت شاید اس کے چہرے پر رنگا رنگ سرخی مل رہی ہے اور یہ غازہ بے حد خوشنما محسوس ہوتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ جب شام کے وقت شفق کی سرخی ہمالہ پر پڑتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے فطرت نے اس کے چہرے پر غازہ مل دیا ہو ۔

 
اے ہمالہ! داستاں اس وقت کی کوئی سُنا
مسکنِ آبائے انساں جب بنا دامن ترا 

معانی: مسکن: رہنے کی جگہ ۔ آبائے انساں : انسان کے باپ دادا ۔
مطلب: اے ہمالہ! ذرا مجھے اس وقت کا احوال تو بتا جب ہزاہا سال قبل باوا آدم نے یہاں آ کر تیرے دامن میں پناہ لی تھی ۔ ظاہر ہے تو ان لمحات کا رازدان ہے ۔

 
کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا 
داغ جس پر غازہَ رنگِ تکلف کا نہ تھا 

معانی: رنگِ تکلف: بناوٹ کا رنگ ۔ تصور: کسی چیز کی صورت کا ذہن میں آنا ۔
مطلب: اے ہمالہ ذرا ان دنوں کے بارے میں ہمیں واقعات و حقائق سے آگاہ کر کہ وہ لمحات تو ہر طرح کے تکلفات سے نا آشنا تھے ۔

 
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو 
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو 

معانی: تصور: کسی چیز کی صورت کا ذہن میں آنا ۔ گردشِ ایام: زمانے، دن رات کا چکر ۔
مطلب: اقبال فرماتے ہیں کہ ان ایام کا نقشہ تم ہی مجھ سے بیان کر دو کہ یہ پہاڑ تو آخر ایک خاموش پتھر ہی نکلا ۔ جب کہ تم میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ گزرے ہوئے ماضی کو پلٹا کر اسی کی پوری داستان منظر عام پر لے آوَ ۔