Please wait..

خودی

 
خودی کو نہ دے سیم و زر کے عوض
نہیں شعلہ دیتے شرر کے عوض

معانی: دے: چھوڑ دے ۔ سیم و زر: سونا چاندی ۔ عوض: بدلے ۔
مطلب: خودی کا تصور اقبال کے ان بنیادی تصورات میں سے ایک ہے جن سے ان کا پوارا نظام فکر عبارت ہے ۔ ان تین اشعار کی اس نظم میں جن میں سے آخری شعر ایران کے ممتاز شاعر فردوسی کا ہے علامہ نے تصور خودی کو اجاگر کیا ہے ۔ کہتے ہیں کہ دولت کے بدلے اپنی خودی کا سودا نہ کر ۔ اس ضمن میں یہ حقیقت جان لے کہ چنگاری کے شعلے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ۔ مراد یہ کہ خودی تو ایک شعلے کی مانند ہے اور دولت محض ایک چنگاری کی طرح ہے ۔

 
یہ کہتا ہے فردوسیِ دیدہ ور
عجم جس کے سُرمے سے روشن بصر

معانی: دیدہ ور: صاحب نظر ۔ روشن بصر: نظر کا روشن ہونا ۔
مطلب:تیرے لیے لازم ہے کہ فارسی کا ممتاز دانش ور اور شاعر فردوسی جو انتہائی حقیقت شناس تھا اس کا قول پیش نظر رکھ کہ اہل عجم کے لیے بھی اس کی حکمت و دانش بصیرت افروز ہے ۔

 
ز بہرِ درم تُند و بدخو مباش
تو باید کہ باشی درم گو مباش

مطلب: فردوسی کا قول ہے کہ مال و دولت اور روپے پیسے کے لیے آپے سے باہر ہو کر اپنی عادت میں بگاڑ نہ پیدا کر ۔ روپیہ پیسہ نہیں ملتا تو نہ ملے تجھ کو یہ امر زیب نہیں دیتا کہ اس کے لیے اپنے جذبہ انسانیت کا خون کر دے بلکہ معاملہ کیسا بھی ہو خود کو اعتدال میں رکھنا ہی احسن فعل ہے ۔