قطعہ ہارون کی آخری نصیحت (46)
ہارون نے کہا وقت رحیل اپنے پسر سے جائے گا کبھی تو بھی اسی راہگذر سے
پوشیدہ ہے کافر کی نظر سے ملک الموت لیکن نہیں پوشیدہ مسلماں کی نظر سے
مطلب: یہ نصیحت ہارون الرشید نے اپنی وفات سے چند لمحے قبل اپنے بیٹے کے گوش گزار کی تھی ۔ جس میں اسے تلقین کی تھی کہ میری طرح سے تو بھی ایک اور فنا کے مرحلے سے گزرے گا ۔ لہذا یہ امر ذہن نشین کر لے کہ موت کا فرشتہ جب روح قبض کرنے آتا ہے تو بے شک وہ کافر کی نظروں سے تو معدوم رہتا ہے لیکن مسلمان کی آنکھ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا ۔ مراد یہ ہے کہ کافر چونکہ منکر خدا ہوتا ہے لہذا وہ موت کو بھی یاد نہیں رکھتا اس کے برعکس وہ اسی دنیا کو سب کچھ سمجھ لیتا ہے لیکن مسلما ن خدا کے ساتھ موت کو بھی ہر لمحے یاد رکھتا ہے اور قیامت پر بھی ایمان رکھتا ہے ۔
قطعہ ماہر نفسیات سے (47)
جراَت ہے تو افکار کی دنیا سے گذر جا ہیں بحر خودی میں ابھی پوشیدہ جزیرے
کھلتے نہیں اس قلزم خاموش کے اسرار جب تک تو اسے ضرب کلیمی سے نہ چیرے
مطلب: ماہر نفسیات سے ہم کلام ہوتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ تو ہر لمحے جو انسانوں اور ان کے مسائل کے بارے میں جائزے لیتا رہتا ہے یہ سب اپنی جگہ درست سہی! پھر بھی تجھ میں اگر جرات و ہمت ہے تو محض اس خیالی دنیا تک محدود نہ رہ بلکہ اس سے آگے نکل کر یہ بھی دیکھ کر خودی تو ایک بحر بے کنار کی مانند ہے اور اس میں ابھی تک کئی ایسے گوشے موجود ہیں جو انسان کی نظروں سے پوشیدہ ہیں ۔ یاد رکھ کہ خودی ایک ایسا خاموش سمندر ہے جس کے بھیدوں کو اس وقت تک انسان نہیں پا سکتا جب تک کہ وہ حضرت موسیٰ کی پیروی نہ کرے ۔ یعنی حکم خدا پر حضرت موسیٰ نے اپنی عصا کو پانی پر مارا جس سے انہیں پار اترنے کا راستہ مل گیا ۔ مراد یہ ہے کہ محض اپنی سوچ اور تصورات ہی زندگی میں کامیابی و کامرانی کا ذریعہ نہیں بن سکتے بلکہ یہ امر بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ کسی معاملے میں حکم خداوندی اور رضائے الہٰی کی نوعیت کیا ہے ۔ خودی سے بہرہ ور ہونے کا یہی طریقہ ہے ۔
قطعہ یورپ (48)
تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار جن کی روباہی کے آگے ہیچ ہے زور پلنگ
خودبخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح دیکھیے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ
مطلب: ایک مدت سے یہودی سود خوار یورپ کو ہڑپ کرنے کی تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ عیار و مکار لوگ جن کے بالمقابل چیتے جیسی پھرتی اور شہ زوری بھی ناکارہ ہو کر رہ جاتی ہے ۔ یورپ کی حیثیت تو ایک پکے ہوئے پھل کی مانند ہے ۔ کون جانے وہ کس کی جھولی میں جا گرے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ خیال اقبال نے جرمنی کے مشہور فلسفی اور دانشور نطشے سے لیا ہے جس نے پہلی بار اپنی ایک تحریر میں یہودی ساہوکاروں کی مکاری اور عیاری کو واشگاف انداز میں بیان کیا ۔
قطعہ (49)
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو کرتا ہوں خار کو سوزن کی طرح تیز
مطلب: جس طرح نسیم سحر کے رویے میں تیزی اور ٹھہراوَ دونوں پہلو موجود ہیں میری فطرت بھی اسی نوعیت کی ہے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ اپنے کمال ہنر سے کبھی لالہ و گل کو اطلس کی قبا پہنا دیتا ہوں اور کبھی کانٹوں کے سروں کو سوئی کے ناکے کی طرح تیز کر دیتا ہوں ۔ مراد یہ کہ جدوجہد اور جوش عمل کے ذریعے میں چیزوں کے روپ بدلنے کی قدرت رکھتا ہوں ۔
قطعہ (50)
کل اپنے مریدوں سے کہا پیر مغاں نے قیمت میں یہ معنی ہے درناب سے دہ چند
زہراب ہے اس قوم کے حق میں مے افرنگ جس قوم کے بچے نہیں خوددار و ہنرمند
مطلب: اپنے مریدوں کو نصیحت کرتے ہوئے پیر مغاں نے کہا سنو! میں تمہیں جو کچھ بتا رہا ہوں وہ راز جواہرات سے بھی دس گنا زیادہ قیمتی ہے ۔ اور وہ یہ کہ مغربی تہذیب اس قوم کے لیے زہر قاتل کی سی حیثیت رکھتی ہے جس قوم کے نوجوانوں میں خودداری کا فقدان ہو اور ہنر مند نہ ہوں ۔ مراد یہ ہے کہ مغربی تہذیب کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ امر ضروری ہے کہ ہمارے نوجوان جہاں خوددار ہوں وہاں جملہ ہنروں سے بھی آگاہی رکھتے ہوں ۔