ایک سوال
کوئی پوچھے حکیمِ یورپ سے ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش
معانی: حلقہ بگوش: غلام ۔ حکیم: مفکر ، فلسفی ۔ معاشرت: تہذیب و تمدن، رہن سہن کا طریقہ ۔ زن: عورت ۔ تہی آغوش: خالی گود والی، بے اولاد ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے یورپ کے مفکروں سے اس لیے سوال کیا ہے کہ عورت کو سر پر چڑھانے کا ذمہ دار ان کا معاشرہ ہی ہے اور دوسرے اس لیے کہ وہ خود کو باقی دنیا سے زیادہ علم والے اور دانائی والے سمجھتے ہیں ۔ اور ہندوستان اور یونان جیسے ملکوں کی تہذیب و تمدن اور افکار و خیالات کو اپنے علم و دانش کا غلام سمجھتے ہیں حالانکہ کبھی یہ علم و دانش کا گہوارہ تھے اور فرنگیوں کا علاقہ جہالت کے اندھیرے میں تھا ۔
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال مرد بیکار و زن تہی آغوش
معانی: معاشرت کا کمال: معاشرے کی ترقی ۔ تہی آغوش: گود خالی، بے اولاد ۔
مطلب : سوال جو علامہ نے مغربی حکما سے جو خود کو ساری دنیا سے بڑھ کر دانا سمجھتے ہیں یہ پوچھا ہے کہ جس تہذیب و تمدن اور رہن سہن کے طریقوں کو تم نے راءج کر رکھا ہے کیا اس کا کمال یہی ہے کہ اس کے نتیجے میں وہاں کے مرد بے کار ہو گئے ہیں اور عورتوں کی گودیں خالی ہیں ۔ یعنی وہ بچہ جننا پسند نہیں کرتیں ۔ جو معاشرہ یہ دو خرابیاں سامنے لاتا ہے کیا وہ اس معاشرے کا کمال یہ ہے یا زوال حقیقت میں یہ کمال نہیں زوال ہے ۔