سید کی لوحِ تُربت
اے کہ تیرا مرغ جاں تارِ نفس میں ہے اسیر اے کہ تیری روح کا طائر قفس میں ہے اسیر
معانی: سید: مراد سر سید احمد خان جنھوں نے علی گڑھ میں مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے کالج کھولا جو اب مسلم یونیورسٹی سے موسوم ہے ۔ لوح تربت: قبر پر لگا ہوا کتبہ ۔ مرغِ جاں : روح کا پرندہ ۔ تارِ نفس: سانس کی ڈوری ۔ قفس: پنجرہ، مراد جسم ۔
مطلب: اقبال نے اپنے مخصوص انداز میں ان اشعار میں بتایا ہے کہ سر سید احمد خان کی تربت کا کتبہ زبان حال سے ہندوستان کے باشندوں سے یوں گویا ہے کہ تم زندگی کی بھول بھلیوں میں گرفتار ہو اور تمہاری روح بھی شب و روز کے عوامل میں مقید ہے ۔
اس چمن کے نغمہ پیراؤں کی آزادی تو دیکھ شہر جو اجڑا ہوا تھا، اس کی آبادی تو دیکھ
معانی: نغمہ پیرا: گیت گانے ، چہچہانے والے ۔
مطلب: ذرا ان لوگوں کی جانب بھی نظر کرو جو یہاں آزادی سے نغمہ پیرائی تو کر رہے ہیں لیکن یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ میں نے تو اپنی جدوجہد اور فکری کاوشوں سے اس ویرانے میں ایک شہر بسا دیا ہے ۔
فکر رہتی تھی مجھے جس کی وہ محفل ہے یہی صبر و استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے یہی
معانی: فکر رہنا: تلاش میں رہنا ۔ صبر و استقلال: قوتِ برداشت اور ثابت قدمی ۔
مطلب: سن لو کہ جو محفل میری خوابوں کی ماحاصل تھی وہ اپنی تعبیر کی حیثیت سے تمہارے روبرو ہے ۔ میں نے جس صبر واستقلال کے ساتھ اپنی جدوجہد سے جو کھیتی کاشت کی تھی اس کا پھل سامنے آ چکا ہے ۔
سنگِ تربت ہے مرا گرویدہَ تقریر دیکھ چشمِ باطن سے ذرا اس لوح کی تحریر دیکھ
معانی: سنگ تربت: قبر پر لگا ہوا پتھر ۔ گرویدہَ تقریر: بات چیت ، گفتگو کا شوق رکھنے والا ۔ چشمِ باطن: مراد بصیرت ۔ لوح: تختی ۔
مطلب: چنانچہ میری لوح تربت جن الفاظ میں تجھ سے عالم خیال میں مخاطب ہے اپنی چشم باطن سے اس کی طرف سنجیدگی سے توجہ کرو ۔
مُدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیمِ دیں ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں
معانی: مُدعا: مقصد ۔
مطلب: اے لوگو! اگر دنیا میں تمہارا مقصد دین کی تعلیم پھیلانا ہے تو خدارا اپنی قوم کو رہبانیت یعنی دنیا کو ترک کرنے کا سبق نہ دینا ۔
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہَ محشر یہاں
معانی: وا کرنا: کھولنا ۔ چھُپ کے بیٹھا ہے: مراد ابھی دبا ہوا ہے ۔ ہنگامہَ محشر: قیامت کا فساد، مراد بہت بڑا فساد، فتنہ ۔
مطلب: سب سے اہم بات یہ ہے کہ فرقہ بندی کی حمایت میں کبھی اپنی زبان نہ کھولنا ۔ اس لیے کہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جو ملک و ملت کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے ۔
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے دیکھ! کوئی دل نہ دُکھ جائے تری تقریر سے
معانی: وصل: مراد اتفاق و محبت ۔ دل دکھنا: دل کو تکلیف پہنچنا ۔
مطلب: اس کے برعکس تمہاری ہر تحریر اور تقریر سے اتحاد و اتفاق کا عنصر نمایاں ہونا چاہیے ۔ اور نہ ہی ایسی گفتگو کرنا جو دوسروں کے لیے دل دکھانے کا سبب بن جائے ۔
محفلِ نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ رنگ پر جو اب نہ آئیں ، ان فسانوں کو نہ چھیڑ
معانی: محفلِ نو: نئی، جدید دنیا ۔ پرانی داستان چھیڑنا: پرانے مسئلے چھیڑنا یا ان کو ہوا دینا ۔ رنگ پر آنا: مقبول ہونا ۔
مطلب: مزید یہ کہ آج کے ترقی پذیر معاشرے میں ماضی کی روایات کو دہرانا درست نہیں ۔ اس لیے کہ اب اس نوع کی افسانہ طرازی ماحول میں کوئی رنگ نہیں بھر سکتی نا ہی اس سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہو گا ۔
تُو اگر کوئی مدبر ہے تو سُن میری صدا ہے دلیری دستِ اربابِ سیاست کا عصا
معانی: مدبر: سیاست دان ۔ صدا: آواز، مراد نصیحت ۔
مطلب: سر سید کی لوح تربت اس بند میں یوں گویا ہے کہ تم لوگوں سے جو مدبر اور سیاستدان ہیں وہ بغور میرا پیغام سن لیں کہ جرات مندی اور دلیری ان کا شعار ہونا چاہیے ۔ کہ وہ ملک و ملت کے مفاد میں حقیقت پسندی اور راست گوئی کے ساتھ اپنا مافی الضمیر پیش کریں ۔
عرضِ مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے
معانی: جھجک جانا: رک جانا، ڈر محسوس کرنا ۔
مطلب: اور سچائی کے اظہار میں کسی قسم کی جھجک کسی طور پر بھی مناسب نہیں اس لیے کہ اگر ملت درست ہو تو اپنی بات کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے ۔
بندہَ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے قوتِ فرماں روا کے سامنے بے باک ہے
معانی: بیم و ریا: ہر طرح کا خوف اور سیاسی دکھاوا ۔
مطلب: یوں بھی نیک اور حق گو انسان کا دل کسی بھی جھجک اور تذبذب کا شکار نہیں ہوتا اور حکمران خواہ کتنے بھی جابر ہوں ان کے روبرو اپنے نقطہ کا اظہار پوری بیباکی اور جرات مندی کے ساتھ کرتا ہے ۔
ہو اگر ہاتھوں میں تیرے خامہَ معجز رقم شیشہَ دل ہو اگر تیرا مثالِ جامِ جم
معانی: خامہَ معجز رقم: ایسی تحریر لکھنے والا قلم جو دوسرا نہ لکھ سکے ۔ شیشہَ دل: مراد دل ۔ جام جم: قدیم ایرانی بادشاہ جمشید کا شراب کا پیالہ جس میں دنیا نظر آتی تھی ۔
پاک رکھ اپنی زباں ، تلمیذ رحمانی ہے تو ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو
معانی: پاک رکھ اپنی زباں : کسی کو برا بھلا نہ کہہ، گالی گلوچ نہ کر ۔ تلمیذ رحمانی: خدا کا شاگرد، عربی مقولہ ہے، الشعراَ تلامیذ الرحمٰن، شاعر خدا کے شاگرد ہیں ، الہام ہوتا ہے ۔ صدا: مراد شاعری ۔
مطلب: اگر تم میں سے کوئی ادیب یا شاعر ہے تو تیرا دل ہر طرح کی منافقت اور ریاکاری سے پاک ہونا ضروری ہے اس لیے کہ تم لوگ فطرت کے شاگرد ہو لہذا تمہارا لب و لہجہ کسی حالت میں بھی بے آبرو نہیں ہونا چاہیے ۔
سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے خرمنِ باطل جلا دے شعلہَ آواز سے
معانی: جگا دے: ان میں جوش و جذبہ پیدا کر دے ۔ اعجاز: معجزہ، کرامت ۔ خرمن باطل: کفر، باطل طاقتوں کا کھلیان، فصل ۔ شعلہَ آواز: مراد جذبوں کی گرمی اور حرارت سے پر شاعری ۔
مطلب: اپنے اشعار کے اعجاز سے ان لوگوں کو بیدا ر کر دو جو ایک عرصے سے غفلت کی نیند سو رہے ہیں ۔ آخری بات یہ ہے کہ جھوٹ اور باطل کو اپنی حق گوئی اور راست بازی سے فنا کر دو ۔