Please wait..

۔ ۔ ۔ کی گود میں بلی دیکھ کر

 
تجھ کو دُزدیدہ نگاہی یہ سکھا دی کس نے
رمز آغازِ محبت کی بتا دی کس نے

معانی: دزدیدہ نگاہی: کنکھیوں سے دیکھنے کی کیفیت ۔ رمز: بھید ۔ آغاز: شروع ۔
مطلب: اس نظم کا مرکزی کردار اگرچہ بظاہر ایک بلی ہے لیکن اگر اس کے اشعار کو گہرائی میں جا کر اور نظم کے عنوان کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو اقبال نے با الواسطہ طور پر یہاں اپنی محبوبہ کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ کہتے ہیں اے بلی یہ تو بتا تو جس طرح میری جانب کن اکھیوں سے دیکھ رہی ہے نظارے کے اس انداز کی تربیت تجھے کس نے دی ہے ۔

 
ہر ادا سے تری پیدا ہے محبت کیسی
نیلی آنکھوں سے ٹپکتی ہے ذکاوت کیسی

معانی: ذکاوت: ذہن کی تیزی، ذہانت ۔ ٹپکنا: مراد ظاہر ہونا ۔
مطلب: یوں بھی تیری ہر حرکت اور ادا سے محبت کا اظہار ہو رہا ہے ۔ تیری نیلی آنکھوں سے جس ذہانت کا اظہار ہو رہا ہے اس سے یہ اندازہ لگانے میں دشواری پیش نہیں آتی کہ تیرے دل میں کیا ہے ۔

 
دیکھتی ہے کبھی ان کو ، کبھی شرماتی ہے
کبھی اٹھتی ہے، کبھی لیٹ کے سو جاتی ہے

مطلب: کبھی تو اپنے مالکہ کی جانب دیکھتی ہے اور کبھی شرمیلی نظروں سے میری طرف دیکھتی ہے ۔ کسی لمحے گود میں اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے اور کبھی یوں آنکھیں موند لیتی ہے جیسے محو خواب ہو ۔

 
آنکھ تیری صفتِ آئنہ حیران ہے کیا
نورِ آگاہی سے روشن تری پہچان ہے کیا

معانی: صفتِ آئنہ: آئینے کی طرح ۔ نورِ آگاہی: باخبری کی روشنی ۔
مطلب: اے پیاری بلی تیری آنکھیں تو آئینے کی طرح حیرت کا منظر پیش کر رہی ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تو پس پردہ حقیقت سے پوری طرح سے آگاہی رکھتی ہے ۔

 
مارتی ہے انھیں پوہنچوں سے عجب ناز ہے یہ
چڑ ہے، یا غصہ ہے ، یا پیار کا انداز ہے یہ

مطلب: ناز و انداز کے اظہار کے تو نے یہ عجب طریقے سیکھے ہیں کہ کبھی اپنی مالکہ پر پنجے آزماتی ہے کبھی خاموشی اختیار کر لیتی ہے ۔ پتہ نہیں چلتا کہ یہ نفرت اور غصہ ہے یا محبت کا کوئی انداز ۔

 
شوخ تو ہوگی ، تو گودی سے اُتاریں گے تجھے
گر گیا پھول جو سینے کا تو ماریں گے تجھے

مطلب: شاید تجھے معلوم نہیں کہ اس طرح کی شوخ ادائیں زیادہ دکھاءے گی تو تیری مالکہ تجھے اپنی گود سے اتار پھینکے گی اور اگر اس کے سینے پر انکا پھول گر گیا تو تجھے اس کی سزا ملے گی ۔

 
کیا تجسس ہے تجھے، کس کی تمنائی ہے
آہ! کیا تُو بھی اسی چیز کی سودائی ہے

معانی: تجسس: کھوج ۔ تمنائی: خواہش رکھنے والی ۔ سودائی: شیدائی، دیوانی ۔
مطلب: نہ جانے تجھے کس شے کا تجسس ہے اور کس جذب کی تلاش ہے اور تیرے دل میں کونسی آرزو پوشیدہ ہے ۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ تو بھی میری طرح اس فرد کی شیدائی ہے جو میری محبوبہ ہے ۔ لگتا ہے تیرے دماغ میں بھی جنون عشق کا سودا سمایا ہوا ہے ۔

 
خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں
صورتِ دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں

مطلب: تیرے رویے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عشق کا جذبہ صرف انسان کی ذات تک محدود نہیں بلکہ حیوانوں کو بھی ودیعت کیا گیا ہے ۔ اس لیے کہ ہر جاندار کے سینے میں دل موجود ہے اور جذبہ عشق کا مسکن دل ہی تو ہوتا ہے ۔

 
شیشہَ دہر میں مانندِ مئے ناب ہے عشق
روحِ خورشید ہے، خونِ رگِ مہتاب ہے عشق

معانی: شیشہَ دہر: زمانے کی صراحی ۔ مئے ناب: خالص شراب ۔ خورشید: سورج ۔ رگِ مہتاب: چاند کی نس ۔
مطلب: میں اس حقیقت کا انکشاف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ دل کو اگر پیمانہ تصور کر لیا جائے تو جذبہ عشق اس پیمانے میں شراب کے مانند ہے ۔ عشق تو سورج کی روح کی مانند ہے اور چاند کی کرنوں سے بھی عبارت ہے ۔

 
دل کے ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی
نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی

مطلب:دل کے ہر ذرے میں دیکھا جائے تو عشق کی کسک پوشیدہ ہے ۔ یہ تو ایسا نور ہے جس کی جھلک ہر شے میں نظر آتی ہے ۔

 
کہیں سامانِ مسرت، کہیں سازِ غم ہے
کہیں گوہر ہے، کہیں اشک، کہیں شبنم ہے

مطلب: لیکن یہ اپنی متضاد خصوصیتوں میں کہیں مسرت کا سبب ہے کہیں غم و اندوہ کا کہیں موتی ہے اور کہیں شبنم کی طرح گرتے ہوئے اشک ہیں ۔