Please wait..

ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض
(۹)

 
کھلا جب چمن میں کتب خانہَ گل
نہ کام آیا مُلا کو علمِ کتابی

معانی: چمن: باغ ۔ کتب خانہ گل: پھولوں کا کتاب گھر ۔ ملا: دینی عالم ۔ علم کتابی: کتاب کا علم ۔
مطلب: جب باغ میں پھولوں کا کتاب گھر کھل گیا تو عالم دین اپنی کتابوں کا علم بھول گیا ۔ مراد ہے کہ جو کچھ فطرت کے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے کتابوں سے نہیں ۔

 
متانت شکن تھی ہوائے بہاراں
غزل خواں ہوا پیرکِ اندرابی

معانی: متانت شکن: سنجیدگی توڑنے والی ۔ ہوائے بہاراں : بہار کی ہوا ۔ غزل خواں : غزل پڑھنے والا ۔ پیرک اندرابی: وسطی ایشیا کے ایک شہر بلخ کے قریب ایک قصبہ ہے جس کا نام اندراب ہے، وادی لولاب میں جو سادات بستے ہیں ان میں سے اکثر اس جگہ سے نقل مکانی کر کے بھی کشمیر میں آئے تھے ۔ یہ لوگ حسب و نسب اور علم و ادب کے اعتبار سے آج بھی ممتاز ہیں ۔
مطلب: بہار کی ایسی ہوا چلی ہے جس نے سنجیدہ لوگوں کو بھی متانت کے خول سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ اندراب قصبے سے آنے والے سادات خاندان سے تعلق رکھنے والے بزرگ بھی شعر خوانی اور غزل خوانی پر مجبور ہو گئے تھے ۔

 
کہا لالہَ آتشیں پیرہن نے
کہ اسرارِ جاں کی ہوں میں بے حجابی

معانی: لالہ آتشیں پیرہن: سرخ لباس پہنے ہوئے لالہ کا پھول ۔ آتشیں : آگ کی طرح کا ۔ پیرہن: لباس ۔ لالہ: ایک سرخ رنگ کا پھول ۔ اسرار جاں : جان کے بھید ۔ بے حجابی: بے پردگی، بے پردہ ہونا ۔
مطلب: آگ کی طرح کا سرخ لباس پہنے ہوئے لالہ کے پھول نے کہا کہ میں جان کے بھیدوں کو کھولنے والا ہوں لا لہ کے پھول کو علامہ نے اپنے کلام میں عشق کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا ہے ۔ اس لیے یہاں مراد ہے کہ نہ علم اور نہ کتاب، انسان جان کے بھید کو کھول سکتی ہے اگر کھول سکتی ہے تو عشق کی طاقت کھول سکتی ہے ۔ دیکھو ملا کا علم کتابی اور اس کا دھرا کا دھرا رہ گیا جب چمن میں ہر طرح پھولوں کی کتابیں کھل گئیں ۔ اور اندراب کے سادات بھی اپنی متانت چھوڑ کر فطرت کے قریب ہوتا ہے اور اس کا مطالعہ کرتا ہے وہ کتابی علم پر بھروسہ نہیں کرتا ۔ زندگی کی حقیقت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اندر عشق کا جذبہ پیدا کیا جائے ۔

 
سمجھتا ہے جو موت خوابِ لحد کو
نہاں اس کی تعمیر میں ہے خرابی

معانی: خواب لحد: قبر کی نیند ۔ نہاں : چھپی ہوئی ۔ تعمیر: بننا ۔ خرابی : بگڑنا ۔
مطلب: جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ زندگی موت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے اور اس کا انجام صرف قبر کی چار دیواری میں سونے تک ہے سمجھ لیں کہ اس کی قلبی و ذہنی اور فکری و خیالی بناوٹ میں کوئی خرابی ہے ۔ زندگی قبر تک کی منزل کا نام نہیں بلکہ یہ اس سے آگے بھی رواں دواں رہتی ہے لیکن اس راز کو وہی پا سکتا ہے جس کا دل عشق سے زندہ ہو اور جس کی روح غلامی سے مردہ نہ ہو چکی ہو ۔

 
نہیں زندگی سلسلہ روز و شب کا
نہیں زندگی مستی و نیم خوابی

معانی: سلسلہ روز و شب: دن اور رات کا سلسلہ: نیم خوابی: آدھی نیند، اونگھ ۔
مطلب: دن اور رات کے سلسلے کا نام زندگی نہیں ہے کہ صبح ہوئی اور شام ہوئی اور اس طرح زندگی تمام ہوئی ۔ زندگی خدا سے اور اپنی اصلیت سے غافل ہو کر عیش و عشرت میں کھو جانے اور اسے سو کر گزار دینے کا بھی نام نہیں ہے ۔

 
حیات است در آتشِ خود طپیدن
خوش آں دم کہ ایں نکتہ را بازیابی

مطلب: زندگی اپنی آگ میں تڑپنے کا نام ہے ۔ مبارک ہو تیرے لیے وہ لمحہ جب تو اس باریک بات کو پھر سے سمجھ لے ۔ اپنی آگ میں جلنے سے مراد اپنے اندر عشق کا جذبہ پیدا کرنے سے ہے ۔ زندگی کا راز اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک عشق راہنمائی نہ کرے ۔ علم کتابیں ، منطق اور فلسفہ اس کی تفہیم اوراس کے بھید کو پانے میں مدد نہیں دے سکتا ۔

 
اگر زآتشِ دل شرارے بگیری
تواں کرد زیرِ فلک آفتابی

مطلب: اگر تو دل کی آگ سے ایک چنگاری حاصل کر لے یعنی اپنے اندر ایسا دل پیدا کر لے جس میں عشق کی آگ ہو اور اس آگ سے غیر اللہ کے خس و خاشاک کو جلا کر اپنے دل میں اللہ کو بسا لے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ تو آسمان کے نیچے یعنی دنیا میں یا زمین پر آفتاب طلوع کر سکتا ہے ۔ مراد ہے خود بھی روشن ہو سکتا ہے اور اہل جہان کو بھی روشنی دے سکتا ہے زندگی کی حقیقت اور صحیح نصب العین کی روشنی ۔

(۱۰)

 
آزاد کی رگ سخت ہے مانندِ رگِ سنگ
محکوم کی رگ نرم ہے مانندِ رگِ تاک

معانی: رگ: دھاگے کی قسم کی جسم کے اندر لمبی لمبی نالیاں ۔ سنگ: پتھر ۔ تاک: انگور کی بیل ۔ محکوم: غلام ۔
مطلب: آزاد قوم کے فرد اور غلام قوم کے فرد کا موازنہ و مقابلہ کرتے ہوئے علامہ بزبان ملا ضیغم کہتے ہیں ۔ کہ آزاد شخص کی رگیں پتھر کی رگوں کی طرح مضبوط ہوتی ہیں اور غلام شخص کی رگیں انگور کی بیل کی رگوں کی طرح نرم ہوتی ہیں ۔ آزاد آدمی میں ہمت، عزم ، حوصلہ ، طاقت ، عمل وغیرہ کی صلاحتیں ہوتی ہیں اس کے برعکس غلام آدمی میں بے ہمتی، بے عزمی، بے حوصلگی اور بے طاقتی اور بے عملی ہوتی ہے ۔

محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید
آزاد کا دل زندہ و پرسوز و طرب ناک

معانی: محکوم: غلام ۔ مردہ: مرا ہوا ۔ افسردہ: بجھا ہوا ۔ نوامید: نا امید ۔ پرسوز: حرارت سے بھرا ہوا ۔ طربناک: خوشی سے بھرا ہوا، شگفتہ ۔
مطلب: آزاد آدمی اور غلام آدمی کی زندگی اور ماحول میں جو فرق ہے اس کا مزید ذکر کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ غلام کا دل مرا ہوا، بجھا ہوا اور ہمیشہ نا امیدی کی حالت میں رہنے والا ہوتا ہے ۔ جب کہ آزاد آدمی کا دل زندہ، حرارت سے بھرا ہوا اور خوشی سے شگفتہ ہوتا ہے ۔

 
آزاد کی دولت دلِ روشن، نفسِ گرم
محکوم کا سرمایہ فقط دیدہَ نمناک

معانی: نفس: سانس ۔ فقط: صرف ۔ سرمایہ: دولت ۔ دیدہ: آنکھ ۔ دیدہَ نمناک: آنسووَں سے پر آنکھ ۔
مطلب: آزاد کی زندگی کی دولت روشن دل اور گرم سانس ہوتی ہے یعنی اس کا دل اپنی آزادی کی روشنی میں زندگی کی صحیح راہ دیکھتا ہے اور عزم و ہمت سے ترقی اور عروج کی منزلوں کی طرف چلتا رہتا ہے اس کے برعکس غلام کی زندگی کی دولت آنسو برسانے والی آنکھ ہوتی ہے یعنی وہ زندگی کا جملہ اقدار اور آسائشوں سے محروم بے مقصد زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے ۔ ایسی بے مقصد زندگی جس میں سوائے غم اور رنج کے کچھ نہیں ہوتا ۔

 
محکوم ہے بیگانہَ اخلاص و مروت
ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک

معانی: محکوم: غلام ۔ بے گانہ: خالی عاری ۔ اخلاص: خلوص ۔ مروت: اچھا سلوک، منطق: فلسفہ ۔ چالاک: ہوشیار ۔
مطلب: محکوم اگرچہ فلسفیانہ قسم کی دلیلیں لانے میں بڑا ہوشیار ہوتا ہے لیکن وہ خلوص اور حسن سلوک کی اعلیٰ قدروں سے محروم ہوتا ہے ۔ آزاد کو تو دنیا میں ہزار کام کرنے کے ہیں لیکن غلام عملی دنیا سے بے گانہ محض فضول بحثوں میں الجھا رہتا ہے ۔

 
ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش
وہ بندہَ افلاک ہے یہ خواجہَ افلاک

معانی: محکوم: غلام ۔ ہمدوش: برابر ۔ بندہ افلاک: آسمانوں کا غلام ۔ خواجہ افلاک: آسمانوں کا آقا ۔
مطلب: قدیم فلسفیوں نے آسمانوں کو زندہ اور کائنات پر حکمران کہا ہے ۔ مصر، یونان ، عراق وغیرہ کے فلسفی یہی کہتے تھے کہا آ سمانوں کی گردش آدمی کی زندگی پر اثر کرتی ہے اور دنیا میں انفرادی اور اجتماعی تبدیلیاں اسی گردش کی بنا پر پیدا ہوتی ہیں لیکن اسلام اس عقیدہ کو نہیں مانتا وہ آدمی کو اشرف المخلوقات سمجھتا ہے ۔ آزاد شخص بھی آسمان کی بالادستی اور حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتا اور اپنے مضبوط ارادے، عالی ہمتی اور گرم عملی کی بدولت اس کو زیر کر لیتا ہے لیکن غلام آدمی کی زندگی اس کی افسردہ دلی، پژمردگی ہمتی اور بے عملی کی وجہ سے ضرور آسمانوں کی گردش کے تابع ہوتی ہے ۔ آزاد مکان و مکان پر حکمران ہوتا ہے اور اس کے گھوڑے کو اپنی مرضی کے مطابق جدھر چاہے موڑ سکتا ہے لیکن غلام پر زمان و مکان سوار ہوتے ہیں اور وہ بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں ان کے فرمان کے تحت زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔