پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
ڈالی گئی جو فصلِ خزاں میں شجر سے ٹوٹ ممکن نہیں ہری ہو سحابِ بہار سے
معانی: پیوستہ رہنا: وابستہ یا ساتھ ملے رہنا ۔ شجر: درخت، قوم ۔ ڈالی: ٹہنی ۔ فصل: موسم ۔ ہری ہونا: تروتازہ، سرسبز ہونا ۔ سحاب: بادل بہار: موسم بہار ۔
مطلب: علامہ اقبال کہتے ہیں کہ موسم خزاں سے اگر کوئی شاخ جھڑ کر درخت سے جدا ہو گئی تو بہار کے موسم میں کتنے ہی بادل برسیں وہ شاخ کسی مرحلے پر شاداب و سرسبز نہیں ہو سکتی ۔
ہے لازوال عہدِ خزاں اس کے واسطے کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و بار سے
معانی: زوال: موسمِ بہار ۔ زوال: ختم نہ ہونے والا ۔ عہد: زمانہ، موسم ۔ برگ و بار: پتے اور پھل ۔
مطلب: خزاں کا موسم اس شاخ کے لیے لازوال حیثیت کا مالک ثابت ہو گا اور اس شاخ کا درخت کے دوسرے پتوں اور شاخوں کے ساتھ کوئی ربط و تعلق نہیں رہے گا ۔
ہے تیرے گلستاں میں بھی فصلِ خزاں کا دور خالی ہے جیبِ گل زرِ کامل عیار سے
معانی: جیبِ گل: پھول کی تھیلی، مراد مسلمان ۔ زرِ کامل عیار: کسوٹی پر پورا اترنے والا، خالص سونا مراد ایمان ۔
مطلب: جب کہ اے مسلمان تیرے گلستان میں بھی ایک طرح سے خزاں کے دور کا تسلط ہے اور ملت ہر نوع کی صلاحیت سے عاری ہو چکی ہے ۔
جو نغمہ زن تھے خلوتِ اوراق میں طیور رخصت ہوئے ترے شجرِ سایہ دار سے
معانی: نغمہ زن: چہچہانے والے ۔ خلوتِ اوراق: پتوں کی تنہائی ۔ طیور: جمع طائر، پرندے، یعنی وہ پرانے مسلمان جو اپنے جذبوں اور عمل سے باغِ اسلام کی رونق کا باعث تھے ۔ شجرِ سایہ دار: گھنے پتوں کے سبب سایہ رکھنے والا درخت، مراد ملت ۔
مطلب: تیری ملت کے زعماء جن کی رہنمائی سے حالات روبہ اصلاح تھے وہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے ۔
شاخِ بریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تو نا آشنا ہے قاعدہَ روزگار سے
معانی: شاخِ بریدہ: درخت کی کٹی ہوئی ٹہنی، مراد قوم سے کٹا ہوا فرد ۔ سبق اندوز: سبق، عبرت حاصل کرنے والا ۔ نا آشنا: بے خبر، ناواقف ۔ قاعدہَ روزگار: زمانے کا دستور، طور طریقہ ۔
مطلب: اے مسلمان! درخت کی اس جھڑ جانے والی شاخ سے سبق حاصل کر کہ تو آج بھی زمانے کے دستور سے آگا ہ نہیں ہے ۔
ملت کے ساتھ رابطہَ استوار رکھ پیوستہ رہ شجر سے، امیدِ بہار رکھ
معانی: رابطہَ استوار: مضبوط تعلق ۔ شجر: قوم ۔
مطلب: تیری بہتری اسی میں ہے کہ ملت و قوم کے ساتھ اپنا رابطہ برقرار رکھے اور خزاں کے بعد متوقع موسم بہار سے تعلقات استوار کرے ۔