مسجدِ قوت الاسلام
ہے مرے سینہَ بے نور میں اب کیا باقی لا الہ مردہ و افسردہ و بے ذوقِ نمود
معانی: یہ ہندوستان میں فتح دہلی کے بعد پہلی مسجد ہے جسے قطب الدین ایبک نے دارالحکومت دہلی میں تعمیر کرایا تھا اور جس کا ایک مینار قطب مینار کے نام سے آج بھی تعمیرات کے شاہکاروں میں شمار ہوتا ہے (اس کو مسجد قوت الاسلام کہتے ہیں ) ۔ لا الہ: دوسرا کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے ۔ افسردہ: بجھا ہوا ۔ بے ذوق: اظہار کے ذوق کا نہ ہونا ۔
مطلب : اس نظم میں میرے اور میری کے الفاظ علامہ نے علامتی طور پر استعمال کیے ہیں جس کے اصل معنی آج کل کے بے عمل مسلمان ہیں ۔ علامہ کہتے ہیں کہ آج ہم مسلمانوں کے سینے روحِ اسلام سے خالی ہو چکے ہیں اور کلمہ توحید کی روح ہمارے اندر مردہ ہو چکی ہے یا بجھ چکی ہے اور کسی میں بھی توحید کو ظاہر کرنے کا ذوق موجود نہیں ہے ۔ مسلمان لا الہ زبان سے تو پڑھتے ہیں لیکن دل اس کی روح سے خالی ہیں ۔
چشمِ فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو کہ ایازی سے دگرگوں ہے مقامِ محمود
معانی: چشمِ فطرت: قدرت کی آنکھ ۔ ایازی: غلامی، ایاز محمود کا غلام تھا ۔ مقام محمود: سلطان محمود غزنوی کا مرتبہ، یعنی سلطانی و حکمرانی ۔ دگرگوں ہے: منتشر ہے، الٹ ہے، برباد ہے ۔
مطلب: مسلمانوں میں غلامی کی وجہ سے سلطانی اور حکمرانی کا نظام اس طرح الٹ پلٹ ہو چکا ہے اور مسلمان، مسلمانی کے اعتبار سے اس حد تک بدل چکے ہیں کہ قدرت کی آنکھ بھی شاید انہیں بطور مسلمان نہ پہچان سکے ۔
کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سے کہ غلامی سے ہوا مثلِ زجاج اس کا وجود
معانی: خجل ہونا: شرمندہ ہونا ۔ سنگینی: مضبوطی ۔ مثل زجاج: شیشے کی مانند ۔ وجود: ہستی، جسم ۔
مطلب: اے مسجد قوت الاسلام تیرے وجود سے جو تیری مضبوطی کی وجہ سے سینکڑوں سال گزرنے پر آج بھی قائم ہے مسلمان کیوں نہ شرمندہ ہو کہ غلامی نے اس کی اور اس کے اندر مسلمانی کی مضبوطی کو شیشے کی مانند نرم کر دیا ہے ۔
ہے تری شان کے شایاں اسی مومن کی نماز جس کی تکبیر میں ہو معرکہَ بود و نبود
معانی: شان کے شایاں : شان کے قابل ۔ تکبیر: اللہ اکبر کہنا ۔ بود و نبود: ہستی اور نیستی ۔
مطلب: اے مسلمان نمازیں تو بھی پڑھتا ہے لیکن یہ نماز کی اصل روح سے خالی ہیں ۔ مومن کی شان کے لائق تو وہ نماز ہوتی ہے جس کی تکبیر میں وجود و عدم یا ہستی و نیستی کی جنگ موجود ہو ۔ یعنی وہ اپنی تکبیر سے حق کو وجود دینے والا اور باطل کو ختم کرنے والا ہو ۔
اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت وہ گداز بے تب و تابِ دروں میری صلوٰۃ اور درود
معانی: نفس: سانس ۔ گداز: سوز ۔ بے تب و تاب دروں : اندرونی تڑپ اور گرمی کے بغیر ۔ صلوۃ: نماز ۔ درود: حضرت محمدﷺ پر ایک خاص انداز اور خاص الفاظ میں تحسین و آفرین کرنا ۔
مطلب: آج کے مسلمانوں کی سانسوں میں پہلے مسلمانوں کی سانسوں جیسی گرمی اور سوز باقی نہیں رہا ۔ ان کی نمازیں پڑھنا یا ان کا حضرت محمد مصطفی ﷺ پر درود بھیجنا واجبی و رسمی ہوتا ہے اور ان میں اندرونی گرمی اور تڑپ بالکل نہیں ہوتی یعنی یہ سب کچھ رسمی رہ گیا ہے اور اصلی روح ان کے اجسام سے نکل چکی ہے ۔
ہے مری بانگِ اذاں میں نہ بلندی نہ شکوہ کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود
معانی: بانگ اذاں : اذان کی آواز ۔ شکوہ: ہیبت، دبدبہ، شان ۔ گوارا: پسند، برداشت ۔ سجود: سجدہ ۔
مطلب: اے مسجد قوت الاسلام تجھ میں جو موذن اذان دیتا ہے اس کی اذان میں بھی وہ رفعت اور وہ ہیبت نہیں رہی جو کبھی اذان سے فضا میں اورمسلمانوں کے دلوں پر چھا جاتی تھی اور وہ جوق در جوق خدا کے آگے سجدہ ریز ہونے کے لیے کھنچے چلے آتے تھے ۔ اے مسجد اب جس قسم کی بے سوز اور بے شان اذان اس دور کا گیا گزرا مسلمان تجھ میں دے رہا ہے کیا تو اسے پسند کرتی ہے یا برداشت کرتی ہے ۔ ایسے مسلمان کی اذان کو اور اس کی سجدوں کو جو وہ نماز میں ادا کرتا ہے یقیناً یہ مسجد پسند نہیں کرتی ہوگی کیونکہ یہ سب کچھ رسمی رہ گیا ہے اور اصل روح اسلامی سے بیگانہ ہو چکا ہے ۔