Please wait..

محراب گل افغان کے افکار
(۱۵)

 
آدم کا ضمیر اس کی حقیقت پہ ہے شاہد
مشکل نہیں اے سالکِ رہ علم فقیری

معانی: ضمیر: سرشت، فطرت، دل ۔ شاہد: گواہ ۔ سالک رہ: راستے کا مسافر ۔
مطلب: شاعر کا خیال ہے کہ فقیری اور درویشی کا علم مشکل نہیں ہے ۔ اوراس کے مشکل نہ ہونے پر اور اس کی اس حقیقت پر خود آدمی کی فطرت گواہ ہے اس لیے اے راہ فقیری کے مسافر خوف نہ کھا یہ راستہ اتنا مشکل نہیں ہے جتنا تو سمجھ رہا ہے بلکہ یہ تو ایک فطری اور آسانی سے طے ہونے والی راہ ہے ۔

 
فولاد کہاں رہتا ہے شمشیر کے لائق
پیدا ہو اگر اس کی طبیعت میں حریری

معانی: فولاد: لوہا ۔ حریری: ریشم کی طرز ۔ شمشیر: تلوار ۔ فولاد: لوہا ۔ طبیعت: مزاج، سرشت ۔
مطلب: اگر لوہا اپنا مزاج بدل لے اور اس کی سرشت میں مضبوطی کی بجائے ریشم کی سی نزاکت پیدا ہو جائے تو وہ لوہا اس قابل نہیں رہتا کہ اس سے تلوار بنائی جا سکے ۔ پہلے شعر کی نسبت سے اس میں شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ راہ فقر اس کے لیے دشوار نہیں ہے جس کی طبیعت تلوار کی مانند تیز اور فولاد کی مثل مضبوط ہو ۔ ریشم کی سرشت رکھنے والوں کے لیے اور آسانی طلبوں کے واسطے بے شک یہ ایک مشکل سفر ہے ۔

 
خوددار نہ ہو فقر تو ہے قہرِ الہٰی
ہو صاحبِ غیرت تو ہے تمہید امیری

معانی: خوددار: خود پر بھروسہ کرنے والا ۔ فقر: درویشی ۔ قہر الہٰی: اللہ کا عذاب ۔ صاحب غیرت: غیرتمند ، غیرت کا مالک ۔ تمہید امیری: امیری کی ابتدا ۔ غیرت: خودداری ۔
مطلب: علامہ نے اپنے کلام میں کئی جگہ دو قسم کے فقر یا درویشی کا ذکر کیا ہے ۔ ایک فقر تنگ دستی، احتیاج اور گداگری کی صورت میں ہوتا ہے اور دوسرا ہر شے سے بے نیاز، خوددار اور غیرت مند فقر ہوتا ہے ۔ اس شعر میں بھی فقر کی ان دو الگ الگ قسموں کا ذکر کرتے ہوئے علامہ نے کہا ہے کہ جو فقر خود پر اعتماد اور خدا پر بھروسہ کرنے والا نہ ہو وہ فقر گداگری کی ایک شکل ہے اور اسے اللہ کا عذاب کہنا چاہیے ۔ اور اگر فقیر غیرت مند اور خودداری اور خود آگاہ ہو تو اس کا فقر امیری کی ابتدا ہے یعنی وہ کچھ نہ رکھتے ہوئے بھی امیروں سے برتر ہوتا ہے ۔ اور سبب اس کا صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ایسا مرد فقیر خود آشنا اور خدا آشنا ہوتا ہے اور اللہ کے سوا کسی کا محتاج نہیں ہوتا ۔

 
افرنگ ز خود بے خبرت کرد وگرنہ
اے بندہَ مومن تو بشیری! تو نذیری

معانی: افرنگ: انگریز یا اہل مغرب ۔ زخود: اپنے آپ سے ۔ بے خبرت کرد: تجھے بے خبر کر دیا ہے ۔ بشیری: خوش خبری دینے والا ۔ نذیری: ڈرانے والا ۔
مطلب: اے صاحب ایمان بندے یا اے مرد مسلمان اگر تو اپنی اقدار سے واقف ہے تو تو وہ شخص ہے جو اچھے کاموں اور اعتقادات پر دوسروں کو خوشخبری دینے والا ہے کہ اس کا انجام اچھا ہو گا اوربر ے کام کا انجام اچھا نہیں ہو گا لیکن کیا کیا جائے اہل مغرب نے اپنی تہذیب ، تمدن اور معاشرت کے اثرات تم میں نفوذ کر کے تمہیں اپنے آپ سے اور اپنی قدروں سے ناواقف بنا دیا ہے ۔ اور اب تو خود بھٹک گیا ہے اس لیے دوسروں کے لیے نہ بشیر ہے اور نہ نذیر ۔