Please wait..

نمبر ۶

 
کبھی اے حقیقتِ منتظر، نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں

معانی: حقیقتِ منتظر: جس حقیقت کا انتظار ہے ۔ لباسِ مجاز: یعنی جسم والا وجود ۔ تڑپ رہے ہیں : بے چین ہیں ۔ جبینِ نیاز: عاجزی اور انکساری والی پیشانی ۔
مطلب: اقبال نے رب ذوالجلال کو خطاب کر کے کہا ہے کہ اے مالک حقیقی ! تو نے خود ابتدائے آفرینش سے حجاب میں چھپا رکھا ہے ۔ لیکن تیرے بندے دیدار کے لیے ترس رہے ہیں لہذا اب ضروری ہو گیا ہے کہ حجاب سے نکل کر مجازی شکل اختیار لے کہ میری عجز و انکسار میں ڈوبی ہوئی پیشانی میں ہزار ہا سجدے مضطرب و منتظر ہیں کہ کب تو سامنے ہو اور ہم سجدہ ریز ہو جائیں ۔

 
طرب آشنائے خروش ہو، تو نوا ہے، محرم گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوتِ پردہَ ساز میں

معانی: طرب آشنائے خروش: یعنی جذبہ عشق کی دھوم مچا دینے کے لطف سے آگاہ ۔ نوا: گیت، نغمہ ۔ محرمِ گوش: کانوں سے واقف، یعنی سنا جانے والا ۔ سرود: گیت، گانا ۔ سکوت: خاموشی ۔ پردہَ ساز: سا، باجے کی لے ۔
مطلب: تجھے تو اس عالم رنگ و بو کے ہنگاموں سے لطف اندوز ہونا چاہیے کہ تیرا وجود ایک ایسی صدا کے مانند ہے جس کی رسائی عام لوگوں کی سماعت تک ہو ۔ یوں بھی ایسے نغمے کی کیا حیثیت ہے جو ساز کے پردے کی خامشی میں گم ہو کر رہ جائے ۔

 
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں

معانی: شکستہ ہو: عشق کی چوٹ کھانے کی حالت ۔ عزیز تر: زیادہ پیارا، پسندیدہ ۔ آئنہ ساز: خدا ۔
معانی: اے محبوب! تیرا دل بے شک ایک آئینے کی مانند ہے یہ بھی فطری امر ہے کہ تو اسے ٹوٹنے سے بچا رہا ہے لیکن یہ عمل شاید مفید نہ ہو کہ جب دل ٹوٹ جاتا ہے تو باری تعالیٰ کی نگاہوں میں زیادہ عزیز تر ہو جاتاہے ۔

 
دمِ طوف، کرمکِ شمع نے یہ کہا کہ وہ اثرِ کہن
نہ تری حکایتِ سوز میں ، نہ مری حدیثِ گداز میں

معانی: دم: وقت ۔ طوف: طواف، اردگرد، چکر کاٹنا، لگانا ۔ کرمک: چھوٹا سا کیڑا یعنی پتنگا ۔ اثرِ کہن: پرانی تاثیر ۔ حکایت سوز: جلنے کی داستان، کیفیت ۔ حدیث گداز: پگھلنے کی بات ۔
مطلب: شمع کے گرد طواف کرتے ہوئے پروانے نے کہا کہ اے شمع! کہ ماضی کی وہ تاثیر نہ تو تیرے جلنے میں موجود ہے نا ہی میرے جل مرنے کے عمل میں باقی ہے ۔ اس لیے کہ اب ہمارے عمل میں خلوص موجود نہیں رہا ۔

 
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں

معانی: خانہ خراب: گھر کو اجاڑ دینے والا گناہ، خطا ۔ تیرے: خدا کا ۔ عفوِ بندہ نواز: یعنی ایسی معافی جو بندوں پر مہربانی کرنے والی ہے ۔
مطلب: اے مولائے کائنات! میرے گناہ گار وجود کو ساری دنیا میں کسی مقام پر بھی پناہ نہیں مل سکی جب کہ اس گناہ نے مجھے برباد کر کے رکھ دیا تھا ۔ پناہ ملی بھی تو محض تیرے دامنِ رحمت میں ۔ جہاں میرے گناہ کو نہ صرف یہ کہ چھپا لیا بلکہ معاف کر دیا ۔

 
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں ، نہ وہ حُسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں

معانی: گرمیاں : جذبے، محبت کی تپش، حرارت ۔ شوخیاں : ادائیں ، دل موہ لینے والے ناز و ادا ۔ غزنوی: مشہور بادشاہ محمود غزنوی جو اپنے غلام ایاز سے بہت محبت کرتا تھا مراد عاشقی ۔ خم: زلفوں کا بل ۔ ایاز: محمود غزنوی کا غلامِ خاص مراد محبوب ہونا ۔
مطلب: اب تو صورتحال ایسی ہو گئی ہے یعنی زمانے میں اس طرح کا انقلاب رونما ہوا ہے کہ عشق میں بھی پہلے کی طرح حرارت نہیں رہی نا ہی حسن میں وہ شوخیاں باقی رہیں ۔ اس کی وجہ سے نہ تو غزنوی میں وہ تڑپ ہے نا ہی ایاز کی زلفوں میں وہ پیچ و خم باقی ہیں جو کشش کے آئینہ دار تھے ۔ مراد یہ ہے کہ عاشق اور محبوب دونوں اپنی صفات سے بیگانہ ہو چکے ہیں ۔

 
جو میں سربسجدہ ہُوا کبھی تو ز میں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں

معانی: سربسجدہ: سجدے کی حالت ۔ صدا : یعنی غیبی آواز، ضمیر کی آواز ۔ صنم آشنا: بتوں کا عاشق، دنیاوی خلائق کی محبت میں گرفتار ۔ کیا ملے گا: یعنی اس حالت میں یہ بے فائدہ عمل ہے ۔
مطلب: اپنی بے عملی کے باوجود میں اگر کبھی سجدہ ریز ہوا تو زمین سے یہ آواز آتی سنائی دی کہ دل تو تیرا بتوں کا پرستار ہے پھر تجھے اس نماز میں آخر کیا ملے گا کہ خلوص کے بغیر کوئی عمل درست نہیں ہوتا ۔