(36)
نہ ہو طغیانِ مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی کہ میری زندگی کیا ہے یہی طغیانِ مشتاقی
معانی: طغیان: زیادتی ۔ مشتاقی: شوق ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ میرے دل میں جذبہ عشق ایک طوفان کے مانند موجزن ہے اس لیے کہ عشق میری فطرت کا بنیادی مسئلہ ہے ۔ صورت احوال یہ ہے کہ میرے دل میں اگر عشق موجزن نہ ہو تو اس حالت میں زندہ نہیں رہ سکتا کہ عشق کا یہی طوفان تو میری زندگی کو متحرک رکھتا ہے ۔
مجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی
مطلب: میری فطرت شاید اسی لیے شعری تخلیق پر مجبور کرتی رہتی ہے کہ ابھی دنیا میں کچھ لوگ ایسے باقی ہیں جو میرے اشعار اور ان میں پوشیدہ پیغام کو سمجھنے کے اہل ہیں ۔
وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھونک سکتی ہے طلب صادق نہ ہو تیری تو پھر کیا شکوہَ ساقی
مطلب: جس طرح عشق حقیقی نے تیرے اسلاف کے دل میں گھر کر لیا تھا اسی طرح یہ تیرے دل میں گھر کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے طلب صادق کی ضرورت ہے ۔ طلب صادق ہی موجود نہ ہو تو پھر خدا سے گلہ کیسا
نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی برّاقی
معانی: تابناکی: چمک دمک ۔ جوہر: موتی ۔ براقی: چمک ۔
مطلب: اس سے بڑی حماقت کیا ہے کہ تو تہذیب مغرب میں خوبیاں اس کی ظاہری چمک دمک سے کر رہا ہے ۔ یہ تو سراسر جعلی نمائش ہے اور جس طرح بجلی کا چراغ روشن ہو تو ماحول بھی منور ہو جاتا ہے لیکن بجلی بند ہونے پر بالاخر تاریکی ہی پھیل جاتی ہے تہذیب مغرب کی چمک دمک کی مثال بھی کچھ اسی نوعیت کی ہے ۔
دلوں میں ولولے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو اندازِ آفاقی
معانی: آفاقی: آسمانی ۔
مطلب: دلوں میں تمام عالم کو تسخیر کرنے کا جذبہ اسی صورت میں بیدار ہوتا ہے کہ نگاہوں میں عالمگیری کا انداز بھی پیدا ہو جائے ۔
خزاں میں بھی کب آ سکتا تھا میں صیاد کی زد میں مری غماز تھی شاخِ نشیمن کی کم اوراقی
معانی: مری غماز: چغل خور ۔ کم اوراقی: تھوڑے پتے ۔
مطلب: انتہائی برے حالات میں بھی میں دشمن کے تیروں کا ہدف نہیں بن سکتا لیکن بدقسمتی سے وسائل بھی ختم ہو گئے یوں میں اس کا نشانہ بن گیا ۔
الٹ جائیں گی تدبیریں ، بدل جائیں گی تقدیریں حقیقت ہے، نہیں میرے تخیل کی یہ خلّاقی
معانی: حالات اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ جو ہم نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے جو تدبیریں کی ہیں وہ بھی بدل کر رہ جائیں گی اور ایک بار پھر تقدیر بھی پلٹا کھائے ۔ یہ نکتہ محض میرے ذہن کی تخلیق نہیں بلکہ سامنے کی حقیقتوں پر مبنی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ معاشرے میں اس تیزی کے ساتھ تبدیلیاں آ رہی ہیں کہ سب کچھ الٹ پلٹ کر رہ جائے گا ۔