وِصال
جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے خوبیِ قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے
معانی: وصال: دو محبت کرنے والوں کی ملاقات ۔ خوبیِ قسمت: مراد خوش قسمتی ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال پھول کی رعایت سے بلبل کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس طرح پھول کے لیے مضطرب اور بے چین رہا ہوں ۔ یہی میرے مقدر کی خوبی ہے کہ اب میرا مطلوب مجھے مل گیا ہے ۔
خود تڑپتا تھا چمن والوں کو تڑپاتا تھا میں تجھ کو جب رنگیں نوا پاتا تھا، شرماتا تھا میں
معانی: رنگیں نوا: پرسوز نغمہ الاپنے والا ۔
مطلب: اس کے ہجر میں تو میں خود بھی تڑپتا رہتا تھا اور اپنے اشعار کے ذریعے دوسروں کو بھی مضطرب اور بے چین رکھتا تھا ۔
میرے پہلو میں دلِ مضطر نہ تھا، سیماب تھا ارتکابِ جرمِ الفت کے لیے بیتاب تھا
معانی: سیماب : پارا، وہ دھات جو ہلتی رہتی ہے ۔ ارتکابِ جرم: قصور، گناہ کرنا ۔ الفت: محبت ۔
مطلب: محبوب کے وصال سے قبل میرے پہلو میں دل کی کیفیت پارے کی مانند تھی جو ہر لمحے تڑپتا رہتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ میرا دل ہمیشہ اپنے محبوب سے ملنے کے لیے بیقرار رہتا تھا ۔
نامرادی محفلِ گل میں مری مشہور تھی صبح میری آئنہ دارِ شب دیجور تھی
معانی: نامرادی: بے نصیب ہونا، محرومی ۔ آئینہ دار: عیب یا خوبی ظاہر کرنے والا ۔ شب دیجور: کالی اور لمبی رات ۔
مطلب: ان دنوں احباب میں میری نامرادی کا چرچا عام تھا ۔ یہاں تک کہ میری صبح بھی اندھیری رات کے مانند تھی ۔
از نفس در سینہَ خوں کشتہ نشتر داشتم زیرِ خاموشی نہاں غوغائے محشر داشتم
مطلب: میرے خون شدہ سینے میں سانس ، نشتر کی طرح چل رہا تھا ۔ میری خاموشی کے نیچے قیامت کا شور برپا تھا ۔
اب تاثر کے جہاں میں وہ پریشانی نہیں اہلِ گلشن پر گراں میری غزل خوانی نہیں
معانی: اس شعر میں اقبال یوں گویا ہوتے ہیں کہ محبوب سے وصال کے بعد میرے تاثرات میں اضطراب و انتشار کی کیفیت ختم ہو گئی ہے ۔ جس کے نتیجے میں میرے اشعار میں وہ شگفتگی اور مسرت کا اظہار ہو رہا ہے کہ میرے احباب ماضی کی طرح پریشان ہونے کے برعکس ان اشعار سے بڑی حد تک لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔
عشق کی گرمی سے شعلے بن گئے چھالے مرے کھیلتے ہیں بجلیوں کے ساتھ اب نالے مرے
مطلب: عشق کی حرارت سے میرے آبلوں میں حرارت پیدا ہو گئی ہے اور میرے نالے اب بجلیوں سے کھیل رہے ہیں ۔ یعنی ان میں بجلی کی سی تاثیر پیدا ہو گئی ہے ۔
غازہَ اُلفت سے یہ خاکِ سیہ آئینہ ہے اور آئینے میں عکسِ ہمدم دیرینہ ہے
معانی: خاکِ سیہ: کالی مٹی ۔ آئینہ ہے: شیشہ ہو گئی، واضح ہو گئی ۔ عکس: تصویر ۔ ہمدم دیرینہ: پرانا دوست ۔
مطلب: محبت کے جذبے نے میرے آئینہ دل میں چمک پیدا کر دی ہے جس میں محبوب کا عکس نمایاں ہو رہا ہے ۔
قید میں آیا تو حاصل مجھ کو آزادی ہوئی دل کے لُٹ جانے سے میرے گھر کی آبادی ہوئی
معانی: عشق کی قید میں گرفتار ہوا تو میرے دلی جذبات کو حقیقی آزادی حاصل ہو گئی ۔ میں نے اپنے دلی جذبات اپنے محبوب پر نچھاور کر دیے تو یوں محسوس ہوا کہ میرا ویران دل صحیح معنوں میں آباد ہو ر ہا ہے ۔
ضو سے اس خورشید کی اختر مرا تابندہ ہے چاندنی جس کے غبارِ راہ سے شرمندہ ہے
مطلب: یہ وصال ایک ایسے خورشید کی مانند ہے جو میرے جذبات کے ستاروں کو روشنی اور تابندگی عطا کر رہا ہے ۔ اور جس کی راہ میں سرگرداں غبار کے سبب خود روشنی بھی شرمسار ہو رہی ہے ۔
یک نظر کر دی و آدابِ فنا آموختی اے خنک روزے کہ خاشاکِ مرا وا سوختی
مطلب: اس شعر میں اقبال اپنے محبوب سے کہتے ہیں ، تو نے مجھ پر ایک نظر ڈال کر عشق میں فنا ہونے کا طریقہ سکھا دیا وہ لمحات خوب تھے ۔ جب تیرے عشق نے میرے جسم کے خاشاک کو جلا کر خاک کر دیا تھا ۔