تصویرِ درد
نہیں منّت کشِ تابِ شُنیدن داستاں میری خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری
معانی: منّت کش: احسان اٹھانے والی ۔ تابِ شنیدن: سننے کی طاقت ۔ بے زبانی: کچھ نہ بولنے کی کیفیت ۔
مطلب: انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں اقبال جو نظمیں پڑھتے رہے تصویر درد بھی انہی میں سے ایک نظم ہے ۔ اس نظم میں انھوں نے عصری صورت حال کے حوالے سے اہل وطن کی بے حسی پر اظہار خیال کیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی انہیں اس امر پر متنبہ کیا ہے کہ اگر انھوں نے اپنی روش نہ بدلی تو تباہی ان کا مقدر بن جائے گی ۔ لہذا ان کے لیے لازم ہے کہ اپنی بہتری کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کریں ۔ فرماتے ہیں مجھے اس امر کا شدید دکھ ہے کہ میں نے جو داستان بیان کی ہے اس پر کسی نے بھی توجہ نہیں دی ۔ اس صورت حال کے سبب میں نے خاموشی اختیار کر لی ہے کہ بعض حالات میں اس نوع کی بے زبانی ہی زبان بن جاتی ہے ۔
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
معانی: دستور: طریقہ، قانون ۔ زباں بندی: بولنے پر پابندی ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تیری بزم میں تو زباں بندی کا دستور اس قدر عام ہو گیا ہے کہ یہاں میری زبان کسی سے بات کرنے کے لیے بھی ترس گئی ہے ۔
اُٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
معانی: ورق: کتاب کے صفحے ۔ لالے: لالہ کامشہور سرخ پھول ۔ نرگس: آنکھ سے ملتا جلتا زرد رنگ کا پھول ۔ گل: مراد گلاب ۔
مطلب: اس کے باوجود میرے لیے یہ حقیقت بھی قدرے واضح ہے کہ میری داستان کے کچھ اوراق مختلف پھولوں یعنی افراد نے اٹھا لیے جب کہ یہ سارے چمن میں بکھرے پڑے تھے ۔
اُڑا لی قُمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرزِ فغاں میری
معانی: قمریوں : جمع قُمری، فاختاؤں ۔ طوطیوں : جمع طوطی، طوطے ۔ عندلیبوں : جمع عندلیب، بلبلوں ۔ طرف فغاں : فریاد کرنے کا انداز ۔
مطلب: اس طرح کچھ لوگوں نے میری طرز سخن اور افکار پر ڈاکہ ڈال دیا اور اس طرح میری متاع کو لوٹ لیا ۔
ٹپک اے شمع! آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے سراپا درد ہوں ، حسرت بھری ہے داستاں میری
معانی: ٹپک: قطرے بن کے نیچے گر ۔ سراپا: پور ے طور پر ۔ حسرت بھری: افسوس سے پُر ۔
مطلب: میں تو سراپا درد بن کر رہ گیا ہوں اور میری داستان میں اب حسرت کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اے شمع ! تو ہی میری غم گسار بن جا اور پروانے کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہہ جا ۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح قوم کے درد میں میں آنسو بہاتا ہوں تو بھی میرا ساتھ دے ۔
الہٰی! پھر مزا کیا ہے یہاں دنیا میں رہنے کا حیات جاوداں میری، نہ مرگِ ناگہاں میری
معانی: حیاتِ جاوداں : ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ۔ پھر مزا کیا ہے: یعنی کوئی لطف نہیں ۔ مرگِ ناگہاں : اچانک کی موت ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال خدا سے کہتے ہیں کہ یہ بتا! میرے لیے تیری اس دنیا میں قیام کرنے کا کیا لطف ہے جب کہ میرا نہ زندگی پر اختیار ہے نا ہی موت پر یعنی میں تو عملاً بے دست و پا فرد ہوں ۔ اور یہ صرف میری اپنی فریاد ہی نہیں بلکہ سارے زمانے کی اجتماعی فریاد ہے ۔
مرا رونا نہیں ، رونا ہے یہ سارے گلستاں کا وہ گل ہوں میں ، خزاں ہر گل کی ہے گویا خزاں میری
معانی: خزاں : پت جھڑ کا موسم ۔
مطلب: میں تو ایک ایسے پھول کی مانند ہوں جو پورے چمن کی خزاں اور بربادی کو اپنی خزاں تصور کرتا ہے ۔
دریں حسرت سرا عمریست افسونِ جرس دارم ز فیضِ دل تپیدن ہا خروشِ بے نفس دارم
مطلب:مدت ہو چلی ہے کہ میں حسرتوں کی اس سرائے یعنی دنیا میں گھنٹے کی سی حالت سے دوچار ہوں ۔ اس لیے کہ دل کے تڑپنے سے اٹھنے والی آوازوں کا شور مجھ میں برپا ہے ۔ (یہ شعر مرزا بیدل کا ہے)
ریاضِ دہر میں نا آشنائے بزمِ عشرت ہوں خوشی روتی ہے جس کو ، میں وہ محرومِ مسرت ہوں
معانی: ریاضِ دہر: زمانے کا باغ ۔ بزمِ عشرت: عیش و نشاط کی محفل ۔ مسرت: خوشی ۔
مطلب: میں تو اس باغِ دنیا میں ایک ایسی شخصیت ہوں جو مسرت و خوشی سے یکسر محروم ہوں ۔ میں تو ان لوگوں میں سے ہوں جن پر مسرت اور خوشی بھی آنسو بہاتی ہے ۔
مری بگڑی ہوئی تقریر کو روتی ہے گویائی میں حرفِ زیرِ لب، شرمندہَ گوشِ سماعت ہوں
معانی: بگڑی ہوئی تقدیر: بدقسمتی ۔ حرفِ زیر لب: وہ بات جو منہ سے نہ نکلی ہو ۔ شرمندہَ گوشِ سماعت: سننے والے کانوں سے شرمندہ ہونے والی، کیونکہ بات منہ سے ہی نہیں نکلی تو کان کیسے سنیں ۔
مطلب: میری تقدیر تو اس قدر بگڑ چکی ہے جس کی کیفیت کا اظہار بھی انتہائی الم انگیز ہے ۔ میری آواز تو ہونٹوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور ہر کوئی اس کو سننے سے قاصر ہے ۔
پریشاں ہوں میں مُشتِ خاک، لیکن کچھ نہیں کھلتا سکندر ہوں کہ آئینہ ہوں یا گردِ کدورت ہوں
معانی: مشتِ خاک: مٹی کی مٹھی ۔ سکندر: سکندر مقدونی، مشہور یونانی فاتح، کہتے ہیں اس نے آئینہ ایجاد کیا تھا ۔ گردِ کدورت: مراد مادیت کا غبار ۔
مطلب: میں بظاہر ایک مشت خاک کی مانند ہوں جب کہ آج تک مجھ پر اس امر کا انکشاف نہیں ہو سکا کہ نصف دنیا کو فتح کرنے والے سکندر کی ماند ہوں یا جمشید کا وہ پیالہ جس میں وہ ساری دنیا کے مناظر دیکھ لیتا تھا یا پھر غبار کے مانند بے حقیقت شے ہوں ۔ مراد یہ کہ اس دار فانی میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے باوجود خود کو شناخت نہیں کر سکا ۔
یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قدر ت کا سراپا نور ہو جس کی حقیقت، میں وہ ظلمت ہوں
معانی: ہستی: وجود، زندگی ۔ مقصد: غرض ۔ حقیقت: اصلیت ۔ ظلمت: تاریکی، اندھیرا ۔
مطلب: ان ساری کیفیتوں کے باوجود اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ میرے وجود کو برقرار رکھنا قدرت کے بنیادی مقاصد کا حصہ ہے اور اسی سبب میں خود کو ایک ایسی ظلمت سے تعبیر کرسکتا ہوں جو عملی سطح پر سراپا نور کی حیثیت رکھتی ہو ۔
خزینہ ہوں ، چھپایا مجھ کو مُشتِ خاکِ صحرا نے کسی کو کیا خبر ہے، میں کہاں ہوں ، کس کی دولت ہوں
معانی: خزینہ: خزانہ ۔
مطلب: دراصل میں ایک ایسے خزانے کی طرح ہوں جو کسی صحرا کی خاک میں چھپا ہوا ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ میری حقیقت کیا ہے اور میں کس کی متاع ہوں ایسی صورت میں مجھ سے کون استفادہ کر سکے گا ۔
نظر میری نہیں ممنونِ سیرِ عرصہَ ہستی میں وہ چھوٹی سی دنیا ہوں کہ آپ اپنی ولایت ہوں
معانی: ممنونِ سیر: مراد دیکھنے ، نظارہ کرنے کا احسان اٹھانے والی ۔ عرصہَ ہستی: زندگی، وجود کا میدان ۔ ولایت: ملک، حکومت ۔
مطلب: میری نظر کو کیا غرض پڑی ہے کہ زندگی کے ساتھ پوری کائنات پر نظر رکھے جب کہ میری ذات تو بذات خود ایک چھوٹی سی دنیا کے مانند ہے اور یہ چھوٹی سی دنیا میں میری اپنی سلطنت کی طرح سے ہے ۔
نہ صہبا ہوں ، نہ ساقی ہوں ، نہ مستی ہوں ، نہ پیمانہ میں اس میخانہَ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں
معانی: صہبا: شراب ۔ ساقی: پلانے والا ۔ مستی: شراب کا نشہ ۔ پیمانہ: شراب کا جام ۔ میخانہَ ہستی: زندگی، وجود کا شرابہ خانہ، یہ دنیا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ میں نہ تو شراب ہوں نا ساقی نا ہی مستی اور نہ ہی پیمانہ ہوں ۔ اس کے برعکس یہ زندگی کا جو میخانہ ہے اس میں موجود ہر چیز کی حقیقت کا مظہر ہوں ۔ مراد یہ ہے کہ اس پورے نظام کائنات میں باری تعالیٰ نے انسان کو مختیار کل بنا کر بھیجا ہے اس کے بغیر تو زندگی نامکمل اور ناکارہ شے ہے ۔
مجھے رازِ دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے وہی کہتا ہوں ، جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے
معانی: رازِ دو عالم: دونوں دنیاؤں کا بھید، حقیقت ۔
مطلب: میرا دل تو ایک ایسے آئینے کی مانند ہے جس میں دونوں جہانوں کے رازہائے سربستہ واضح طور پر نظر آتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ میں اپنے اشعار میں ان حقائق کو سامنے لاتا ہوں جو عملی سطح پر میرے مشاہدے میں آتے ہیں ۔
عطا ایسا بیاں مجھ کو ہُوا رنگیں بیانوں میں کہ بامِ عرش کے طائر ہیں میرے ہم زبانوں میں
معانی: عطا ہوا: مراد خدا کی طرف سے ملا ۔ بیاں : مراد شاعری ۔ رنگیں بیان: مراد دل کش شعر کہنے والا ۔ بامِ عرش: عرش کی چھت ۔ طائر: پرندہ ۔ ہم زباں : مراد ساتھی ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ جو لوگ بڑے رنگین بیاں تھے فطرت نے مجھے ان میں سب سے الگ ایسی طرز بیاں عطا کی ہے کہ آسمانوں پر جو خوش الحان فرشتے ہیں وہ بھی میری ہم نوا بن گئے ہیں ۔
اثر یہ بھی ہے اک میرے جنونِ فتنہ ساماں کا مرا آئینہ دل ہے قضا کے رازدانوں میں
معانی: جنونِ فتنہ سامان: دل میں ہنگامہ برپا کردینے والی دیوانگی یعنی عشق ۔ آئینہ دل: ایسا دل جس پر قدرت کے راز ظاہر ہوتے ہیں ۔ قضا: خدائی حکم ۔ رازدان: بھیدوں سے واقف ۔
مطلب: مجھ میں جو عشق کا جذبہ موجود ہے اس کے سبب میں اپنی شعری تخلیقات میں قضا و قدر کے تمام سربستہ راز پیش کرنے کی اہلیت رکھتا ہوں ۔
رُلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں ! مجھ کو کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ، سب فسانوں میں
معانی: رُلاتا ہے: یعنی بہت دکھ پہنچاتا ہے ۔ عبرت خیز: مراد دردناک جس سے دوسروں کو تنبیہ ہو ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال اپنے عہد کے ہندوستان کا نقشہ کھینچتے ہوئے بڑے افسردہ لہجے میں کہتے ہیں کہ تیری افسوسناک صورت حال پر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے اس لیے کہ دنیا کے دوسرے افسانوں میں تیرا افسانہ سب سے زیادہ عبرت انگیز دکھائی دیتا ہے ۔
دیا رونا مجھے ایسا کہ سب کچھ دے دیا گویا لکھا کلکِ ازل نے مجھ کو تیرے نوحہ خوانوں میں
معانی: کلکِ ازل: قدرت کا قلم ۔ نوحہ خواں : مرثیہ پڑھنے والا، ماتم کرنے والا ۔
مطلب: تیری حالت پر میں جو افسردہ ہوں تو یوں لگتا ہے کہ قدرت نے میرا نام تیرے نوحہ خوانوں میں شامل کر دیا ہے ۔
نشانِ برگِ گل تک بھی نہ چھوڑ اس باغ میں گل چیں تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں
معانی: برگِ گل: پھول کی پتی، مراد معمولی سے معمولی چیز ۔ نہ چھوڑا: یعنی لوٹ لیا ۔ گل چیں : پھول توڑنے والا، مراد انگریز حکمران ۔ باغ: ہندوستان، بر صغیر ۔ تری قسمت سے: مراد تیری خوش بختی ہے کہ ۔ رزم آرائیاں : لڑائی جھگڑے، فسادات ۔ باغبانوں : جمع باغبان، مالی، مراد برصغیر کی دو بڑی قو میں ہندو اور مسلم ۔
مطلب: یہاں اقبال بڑے دکھ کے ساتھ پھول توڑنےوالے یعنی دشمن سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب باغ کے مالی اور رکھوالے ہی آپس میں دست و گریباں ہوں تو اس باغ کو برباد کرنے کے عمل میں تجھے کونسی قباحت محسوس ہو گی ۔
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے عنادلِ باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
معانی: آستیں : قمیص، کرتے کی بانھ ۔ بجلیاں : جمع بجلی مراد تباہی کے سامان ۔ گردوں : آسمان ۔ عنادل: جمع عندلیب، بلبل ، مراد وہی قو میں ۔ آشیانوں : جمع آشیانہ، گھونسلے، مراد اپنی اپنی جگہ ۔
مطلب: یوں بھی آسمان نے اپنے دامن میں بجلیاں چھپا رکھی ہیں اس صور ت میں اہل چمن کو انھوں نے انتباہ کیا ہے کہ اسی مرحلے پر اگر تم نے غفلت سے کام لیا تو نتیجہ بربادی کے سوا اورر کچھ نہ ہو گا ۔
سُن اے غافل! صدا میری، یہ ایسی چیز ہے جس کو وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں
معانی: وظیفہ: ہر روز پڑھی جانے والی تسبیح ۔ بوستان: باغ ۔
مطلب: میری آواز سنو ! کہ یہ ایسی چیز ہے جس کو غیر وظیفہ جان کر سنتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ دوسرے تو میری بات کا بے حد احترام کرتے ہیں جب کہ تم اہل وطن اس سے غفلت برتے رہے ہو ۔
وطن کی فکر کر ناداں ! مصیبت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
معانی: مصیبت آنے والی ہے: مراد ملک کے حالات تباہی کی طرف جا رہے ہیں ۔
مطلب: اے میرے عزیز! تو کتنا نادان ہے کہ اپنے وطن کے تحفظ کا خیال نہیں کرتا جب کہ آسمانوں پر تیری بربادیوں کے مشورے جاری ہیں ۔
ذرا دیکھ اس کو ، جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے دَھرا کیا ہے بھلا عہدِ کہن کی داستانوں میں
معانی: عہد کہن: پرانا دور، زمانہ ۔ داستان: اشارہ ہے مسلم ہندو اختلافات کی طرف ۔ دھرا کیا ہے: کیا فائدہ ہے ۔
مطلب: ذرا اس منظر کا جائزہ لے کہ اب تک یہاں کیا ہو چکا ہے اورآئندہ کیا ہونے والا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ تو ماضی کی داستانوں میں گھرا ہوا ہے ۔ حالانکہ عصر نو میں ان داستانوں کی اہمیت ہی ختم ہو چکی ہے ۔
یہ خاموشی کہاں تک لذتِ فریاد پیدا کر ز میں پر تو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں
معانی: لذت فریاد: پر اثر انداز میں دل کا درد بیان کرنا ۔ اسلوب فطرت: قدرت کا طریقہ، انداز ۔
مطلب: بتا کہ تو اس طرح کب تک خاموش رہے گا ۔ اپنی آواز اس طرح بلند کر کہ تیری صدا ز میں سے آسمان تک رسائی حاصل کر لے ۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاوَ گے اے ہندوستاں والو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
مطلب: اس شعر میں اقبال اہل ہند سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ میرے انتباہ کے باوجود اب بھی تم بیدار نہ ہوئے اور اپنے معاملات کو نمٹانے کے لیے جدوجہد کا آغاز نہ کیا تو جان لو کہ ماضی اور حال سے متعلق داستانوں میں تمہاری داستان کا ذکر تک نہ ہو گا ۔
یہی آئینِ قدرت ہے، یہی اسلوبِ فطرت ہے جو ہے راہِ عمل میں گامزن ، محبوبِ فطرت ہے
مطلب: کہ قدرت کا نظام بھی یہی ہے اور فطرت کے اصول بھی اسی طرح کے ہیں کہ جو راہ عمل پر گامزن رہتا ہے خدا اسے ہی محبوب رکھتا ہے ۔
ہویدا آج اپنے زخمِ پنہاں کر کے چھوڑوں گا لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا
معانی: زخمِ پنہاں : دل کو پہنچنے والا پوشیدہ دکھ ۔ لہو رونا: خون کے آنسو رونا جو انتہائی غم کی علامت ہے ۔ گلستاں : سرخ گلاب کے پھولوں کا باغ ۔
مطلب: ان اشعار میں اقبال انتہائی رنج و الم مگر جوش اورجذبے کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ آج اپنے چھپے ہوئے زخموں کو نمایاں ہی کر کے چھوڑوں گا ۔ میری آنکھوں سے لہو بہے گا جو پورے باغ وطن میں پھیل جائے گا ۔
جلانا ہے مجھے ہر شمعِ دل کو سوزِ پنہاں سے تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا
معانی: سوزِ پنہاں : دل کی تپش ۔ ہر شمع دل: یعنی ہر ہم وطن کا دل ۔ مگر: ممکن ہے ۔
مطلب: میرے دل میں جو درد چھپا ہے اس کی آنچ سے ہر دل کی شمع کو روشن کر دوں گا ۔ اور اسی شمع سے میں اے وطن تیری تاریک راتوں کو جگمگا دوں گا ۔
مگر غنچوں کی صورت ہوں دلِ درد آشنا پیدا چمن میں مُشتِ خاک اپنی پریشاں کر کے چھوڑوں گا
معانی: درد آشنا: درد کے لطف ، مزے سے باخبر ۔ مشتِ خاک: مٹھی بھر خاک ۔ پریشاں کرنا: بکھیرنا ۔
مطلب: میں تو اپنی جان بھی قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوں بشرطیکہ تیرے باسیوں کے سینوں میں دلِ درد آشنا پیدا ہو جائے ۔
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو جو مشکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا
معانی: ایک ہی تسبیح میں پرونا: مراد ان فرقوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنا ۔ بکھرے دانے: مراد مختلف فرقوں کی صورت ۔
مطلب: میرے اہل وطن نفاق اور نفرت کی آگ میں جل رہے ہیں ۔ میں اس حقیقت سے پوری طرح سے آگاہ ہوں تا ہم خود پر اتنا اعتماد بھی ہے کہ اگر یہ مشکل ہے تو اس کو آسان بھی کر دوں گا ۔
مجھے اے ہم نشیں ! رہنے دے شغلِ سینہ کاوی میں کہ میں داغِ محبت کو نمایاں کر کے چھوڑوں گا
معانی: ہم نشیں : ساتھی ۔ شغل: مشغلہ، کام ۔ سینہ کاوی: سینہ کھرچنا، انتہائی دکھ کی حالت ۔ داغ: زخم ۔
مطلب: اے میرے ہم نشیں ! مجھے اپنے سینے کو کھرچنے کے عمل میں ہی مصروف رہنے دے کہ اس طرح میں ان داغوں کو نمایاں کرنا چاہتا ہوں جو فی الواقع محبت کے داغ ہیں ۔
دکھا دوں گا جہاں کو، جو مری آنکھوں نے دیکھا ہے تجھے بھی صورتِ آئینہ ، حیراں کر کے چھوڑوں گا
معانی: صورتِ آئینہ: آئینے کی طرح ۔
مطلب: میری نگاہ حقیقت بین نے اب تک جو منظر دیکھے ہیں ساری دنیا کو ان کا نظارہ کرا دوں گا ۔ تاکہ وہ نفاق اور نفرتوں کو چھوڑ کر اتحاد و یگانگت سے بہرہ ور ہو سکے ۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تمام احساسات اپنی تخلیقات کے ذریعے لوگوں تک پہنچا دوں گا ۔ مجھے اس امر پر مکمل اعتماد ہے کہ جب لوگ میرے مشاہدات، تجربات اور احساسات سے واقف ہوں گے تو دم بخود ہو کر رہ جائیں گے ۔
جو ہے پردوں میں پنہاں ، چشمِ بینا دیکھ لیتی ہے زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے
معانی: چشمِ بینا: بصیرت کی آنکھ ۔ تقاضا: ضرورت، خواہش ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال یوں گویا ہوتے ہیں کہ صرف میں ہی نہیں بلکہ ہر نگاہ حقیقت بین کی ان مناظر تک رسائی ہو جاتی ہے جو ابھی تک پردوں میں چھپے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ ایسی حقیقت شناس نظریں اپنے عہد کے تقاضوں کو بھی پوری طرح پہچان لیتی ہیں ۔
کیا رفعت کی لذت سے نہ دل کو آشنا تو نے گزاری عمر پستی میں مثالِ نقشِ پا تو نے
معانی: رفعت: بلندی ۔ پستی: ذلت ۔ نقش پا: مٹی پر پاؤں کے پڑنے والے نشان ۔
مطلب: اس پورے بند میں اقبال اس عالم بے عمل سے براہ راست مخاطب ہیں جو مذہب کا اجارہ دار بنا ہوا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ تو نے کسی مرحلے پر بھی وسعت قلبی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ نا ہی تیری نگاہوں میں وہ رفعت پیدا ہوئی جو فرد کو فرشتے سے بھی افضل بنا دیتی ہے ۔ اس کے برعکس تو نے تو تمام عمر نفاق اور نفرتوں کی پستیوں میں گزار دی ۔
رہا دل بستہَ محفل، مگر اپنی نگاہوں کو کیا بیرونِ محفل سے نہ حیرت آشنا تو نے
معانی: بیرون محفل: گھر سے باہر یعنی ملکی حالات ۔ حیرت آشنا: مراد حیران پریشان ہونے والا ۔
مطلب: ہر چند کہ تیرے دم سے محفلوں میں دل بستگی کا سامان تو پیدا ہوا لیکن تو اس قدر داخلیت پسند تھا کہ یہ بھی نہ دیکھ سکا کہ محفلوں سے باہر بھی تو بہت کچھ ہے ۔
فدا کرتا رہا دل کو حسینوں کی اداؤں پر مگر دیکھی نہ اس آئینے میں اپنی ادا تو نے
مطلب: تو دوسروں کی خوبصورتیوں اور اداؤں پر قربان تو ہوتا رہا لیکن تیرے اندر اگر کوئی خوبصورتی چھپی ہوئی تھی اس کی جانب کوئی توجہ نہ کی ۔
تعصّب چھوڑ ناداں ! دہر کے آئینہ خانے میں یہ تصویریں ہیں تیری، جن کو سمجھا ہے بُرا تو نے
معانی: تعصب: بے جا حمایت ۔ ناداں : ناسمجھ، کم عقل ۔ دہر: زمانہ ۔ آئینہ خانہ: ایسا گھر جس کی دیواروں پر آئینے لگے ہوں ۔
مطلب: خدا کے لیے اپنے متعصبانہ نقطہ نظر سے گریز کر کہ تو جن چیزوں کو برا سمجھ رہا ہے وہ تو اس دنیا کی زندہ حقیقت ہیں ۔
سراپا نالہَ بیدارِ سوزِ زندگی ہو جا سپند آسا گرہ میں باندھ رکھی ہے صدا تو نے
معانی: سراپا: پوری طرح ۔ نالہ: فریاد ۔ سوزِ زندگی: زندگی کی حرارت جس سے انسان میں قوتِ عمل پیدا ہوتی ہے ۔ سپند آسا: کالے دانے کی طرح ۔ گرہ میں باندھ رکھنا: سنبھال رکھنا ۔
مطلب: وطن اور اہل وطن پر جو ظلم و ستم ہو رہے ہیں ان کے خلاف تو تجھے سراپا احتجاج بن جانا چاہیے تھا لیکن تو نے تو اس صورت حال کے خلاف اپنی زبان اس طرح بند رکھی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ مراد یہ ہے کہ غیر ضروری اور نفاق انگیز باتوں پر تو تو چیخ اٹھتا ہے لیکن جن باتوں پر احتجاج کرنا چاہیے ان پر اپنی زبان بند رکھتا ہے اور احتجاج کی جرات نہیں کرتا ۔
صفائے دل کو کیا آرائشِ رنگِ تعلق سے کفِ آئینہ پر باندھی ہے او ناداں ! حنا تو نے
معانی: صفائے دل: دل کی پاکیزگی ۔ آرائش: سجاوٹ ۔ رنگ تعلق: دنیاوی تعلقات کا رنگ ۔ کفِ آئینہ پر حنا باندھنا: بے فائدہ قسم کا کام کرنا ۔
مطلب: اگر دل و ضمیر صاف ہوں تو ان کے بارے میں کسی قسم کی رنگ آمیزی کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن تو نے تو اے عالم بے عمل آئینے کی شفاف سطح پر بھی مہندی لگا کر اسے رنگنے کی کوشش کی ہے ۔
ز میں کیا، آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے غضب ہے سطرِ قرآں کو چلیپا کر دیا تو نے
معانی: کج بینی: مراد غلط باتیں سوچنا ۔ غضب ہے: دکھ کی بات ہے ۔ سطرِ قرآں : مرا د قرآنی آیات ۔ چلیپا کر دیا: مراد باطل کر دیا ۔
مطلب: تو اس قدر کج بین ہے کہ زمین ہی نہیں بلکہ آسمان بھی تیرے اس رویے کے خلاف مضطرب اورر مضمحل ہے کہ تو نے تو قرآن کی آیات کو بھی اپنے زیر مفاد غلط معنی پہنا دیئے ہیں ۔
زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل بنایا ہے بُتِ پندار کو اپنا خدا تو نے
معانی: توحید کا دعویٰ: خدا کی وحدت پر ایمان کا پر زور اظہار ۔ بت پندار: غرور، تکبر کا بت ۔
مطلب: اپنی زباں سے تو تو خدا کی وحدانیت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن عملی سطح پر اپنے مفاد کے تحت کئی بت پا ل رکھے ہیں ۔
کنوئیں میں تو نے یوسف کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا ارے غافل! جو مطلق تھا، مقید کر دیا تو نے
معانی: یوسف: حضرت یوسف جن کو ان کے بھائی کنویں میں چھوڑ گئے تھے ۔ مُطلق: مراد ہر قسم کی شرط وغیرہ سے آزاد ۔ مقید: قید کیا گیا ۔
مطلب: اے عالم بے عمل تو نے حضرت یوسف کی حقیقت بیان کرتے ہوئے حدود قیود سے آزاد چیزوں کو حدود و قیود کا پابند بنا کر رکھ دیا ہے ۔
ہوس بالائے منبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی
معانی: ہوس: لالچ ۔ بالائے ممبر: ممبر کے اوپر ۔ رنگیں بیانی: لچھے دار باتیں کرنا ۔ صورت: شکل ۔ افسانہ خوانی: کہانی پڑھنا یعنی سنانا ۔
مطلب: تیرا مقصود تو محض یہی ہے کہ منبر پر اپنی رنگیں بیانی کے جوہر دکھائے ۔ حد تو یہ ہے کہ تو جو نصیحتیں کرتا ہے وہ محض افسانہ خوانی سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتیں ۔
دکھا وہ حُسنِ عالم سوز اپنی چشمِ پرنم کو جو تڑپاتا ہے پروانے کو، رلواتا ہے شبنم کو
معانی: حُسن عالم سوز: دنیا کو جلا ڈالنے والا حُسن ۔ چشم پرنم: روتی ہوئی آنکھیں ۔ پروانہ: پتنگا ۔ شبنم: اوس ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال اپنے عہد کے عالم بے عمل کو مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی نمناک آنکھوں کو اس حسن سے آشنا کر جو پروانے کے دل میں اضطراب و تڑپ پیدا کرتا ہے اور جس کے سبب شبنم کو اشک آلودہ ہونا پڑتا ہے ۔
نرا نظارہ ہی اے بو الہوس! مقصد نہیں اس کا بنایا ہے کسی نے کچھ سمجھ کر چشمِ آدم کو
معانی: بو الہوس: بہت لالچی ۔ کسی نے: مراد خدا نے چشمِ آدم: انسان کی آنکھ ۔
مطلب: تو جس انداز سے کائنات کے معاملات کو دیکھتا ہے وہ قدرت کے مقاصد کی نفی کا حامل ہے ۔ حالانکہ خدائے عزوجل نے بالاخر سوچ سمجھ کر انسان کی آنکھوں کو بنایا ہے ۔
اگر دیکھا بھی اس نے سارے عالم کو تو کیا دیکھا نظر آئی نہ کچھ اپنی حقیقت جام سے جم کو
معانی: جام: شراب کا پیالہ ۔ جم: جمشید، ایرانی بادشاہ جس کے جام میں دنیا نظر آتی تھی ۔
مطلب : بے شک جمشید نے جو پیالہ تیار کیا تھا اس کے ذریعے وہ پوری دنیا کے مناظر کو دیکھتا رہا اس کے باوجود وہ حقائق کا نظارہ کرنے سے محروم ہی رہا ۔
شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو
معانی: شجر: درخت ۔ فرقہ آرائی: مراد فرقہ پرستی ۔ آدم: مراد حضرت آدم۔
مطلب: سن لے کہ فرقہ آرائی ایک ایسے درخت کی مانند ہے جس کا پھل تعصب کے سوا اور کچھ نہیں ۔ مراد یہ ہے کہ فرقہ بندی سے معاشرے کو توڑ پھوڑ اور منافرت کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ تفرقہ بازی کے سبب ہی حضرت آدم جنت سے نکالے گئے ۔ اقبال کا اس شعر میں یہ کہنا ہے کہ فرشتوں اور آدم کے مابین نفرت کی جو فضا پیدا ہوئی اس کے ردعمل کے طور پر آدم جنت سے نکالے گئے ۔
نہ اُٹھا جذبہَ خورشید سے اک برگِ گل تک بھی یہ رفعت کی تمنا ہے کہ لے اڑتی ہے شبنم کو
معانی: جذبہَ خورشید: سورج کی کشش ۔ برگ گل: پھول کی پتی ۔
مطلب: اقبال اس شعر میں کہتے ہیں کہ سورج اتنی بلندی پر اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے اس کے باوجود ایک پھول کی پتی کو بھی زمین سے اوپر اٹھانے کی اہلیت نہیں رکھتا ۔ اس کے برعکس یہ شبنم ہے جو اڑ کر بلند فضاؤں سے جا ملتی ہے اس لیے کہ وہ بلند فطرت کی مالک ہے ۔
پھرا کرتے نہیں مجروحِ الفت فکرِ درماں میں یہ زخمی آپ کر لیتے ہیں پیدا اپنے مرہم کو
معانی: مجروحِ الفت: مراد محبت کے مارے ہوئے ۔ درماں : علاج ۔ مرہم: دوا، دارو ۔
مطلب: مزید یہ کہ اہل محبت کو اپنے زخم بھرنے کی قطعی پروا نہیں ہوتی کہ یہ لوگ تو خود ہی اپنے زخموں کے لیے مرہم پیدا کر لیتے ہیں ان کو کسی بھی معالج اور دوا کی حاجت نہیں ہوتی ۔
محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طور ہوتا ہے
معانی: شرر: چنگاری ۔ ریاضِ طور: طور کا باغ
مطلب: یہ محبت کا شعلہ ہی ہے جو عملی سطح پر نور مطلق کی حیثیت رکھتا ہے یہ محبت ہے جو ایک معمولی بیج کے طور پر اس امر کی اہل ہے جو طور کے باغات کی تخلیق کرے ۔ اقبال کا نقطہ نظریہ ہے کہ محبت کے جذبے کی بنیاد پر قلب انسانی عملی طور پر باری تعالیٰ کے نور سے منور ہو جاتا ہے ۔
شرابِ بے خودی سے تا فلک پرواز ہے میری شکستِ رنگ سے سیکھا ہے میں نے بن کے بُو رہنا
معانی: شرابِ بے خودی: مدہوشی کی شراب ۔ تافلک: آسمان تک ۔ شکستِ رنگ: رنگ اڑنا ۔
مطلب: میرے تخیل کی پرواز جو آسمان تک ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے پھولوں کی ماہیت سے کچھ نتاءج اخذ کیے ہیں ۔ بے شک پھولوں کا رنگ تو کسی نہ کسی مرحلے پر اڑ جاتا ہے تا ہم ان میں جو خوشبو ہوتی ہے وہ فضاؤں کو اکثر و بیشتر معطر کرتی رہتی ہے ۔
تھمے کیا دیدہَ گریاں وطن کی نوحہ خوانی میں عبادت چشمِ شاعر کی ہے ہر دم با وضو رہنا
معانی: تھمنا: رُکنا ۔ دیدہَ گریاں : روتی ہوئی آنکھیں ۔ وطن کی نوحہ خوانی: وطن کی غلامی کے غم پر دکھ کا اظہار ۔ باوضو: جس کا وضو قائم ہو ۔
مطلب: میں جو وطن اور اہل وطن کی بے حسی اور بے عملی پر ہر دم گریہ کناں رہتا ہوں وہ ایک فطری امر ہے اس لیے کہ میرے لیے ہی نہیں بلکہ ہر شاعر کے لیے یہ عمل عبادت سے کم نہیں کہ وہ اپنی تخلیقات کے ذریعے اس صورت حال کا چرچا کرے ۔
بنائیں کیا سمجھ کر شاخِ گل پر آشیاں اپنا چمن میں آہ! کیا رہنا، جو ہو بے آبرو رہنا
معانی: آشیاں : گھونسلا ۔ آہ: افسوس ۔ بے آبرو رہنا: ذلت کی زندگی گزارنا ۔
مطلب: اس سارے پس منظر میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب وطن اور اہل وطن کی بے عملی اپنے انتہائی عروج پر ہو تو ایک باشعور اور غیرت مند تخلیق کار یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جہاں عزت و آبرو کا تصور ہی مفقود ہو کر رہ جائے وہاں بود و باش اختیار کرنے سے کیا حاصل ہو سکتا ہے ۔
جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں غلامی ہے اسیرِ امتیاز ما و تُو رہنا
معانی: امتیاز: ما و تُو: میں اور تو میں فرق پیدا کرنا ۔
مطلب: ہر فرد کے لیے لازم ہے کہ آزادی کے حصول کے لیے محبت بنیادی جذبہ ہے اس کے برعکس جہاں تک نفرت کا تعلق ہے وہ تو اسے غلامی سے ہمکنار کرتی ہے ۔
یہ استغنا ہے، پانی میں نگوں رکھتا ہے ساغر کو تجھے بھی چاہیے مثلِ حبابِ آبجو رہنا
معانی: استغنا: کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے کی حالت ۔ نگوں : اُلٹا ۔ حباب: بلبلہ ۔ آبجو: ندی ۔
مطلب: یہ بے نیازی کا طور ہی ہے کہ جو پیالے کو پانی میں ڈبو ئے رکھتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی ندی میں پانی کے بلبلے اوپر نیچے حرکت کرتے رہتے ہیں لیکن ڈوبتے نہیں ۔ تیرے لیے لازم ہے کہ شان بے نیازی اختیار کر لے ۔
نہ رہ اپنوں سے بے پروا ، اسی میں خیر ہے تیری اگر منظور ہے دنیا میں او بیگانہ خو! رہنا
معانی: بے پروا: خیال نہ کرنے والا ۔ منظور ہے: خواہش ہے ۔ او: اے ۔ بیگانہ خو: مراد دوسروں سے غیروں کی طرح ملنے والا ۔
مطلب: تو نے تو نفرتوں اور افتراق کے ذریعے خود کو الگ تھلگ کر رکھا ہے ۔ تا ہم دنیا میں رہنا ہے تو یہ انداز ترک کر دے اور سب سے مل کر رہ ۔ اس لیے کہ محبت و یگانگت کے طفیل ہی نوع انساں خوش حال اور مطمئن رہ سکتی ہے ۔
شرابِ روح پرور ہے محبت نوع انساں کی سکھایا اس نے مجھ کو مستِ بے جام و سبو رہنا
معانی: شرابِ روح پرور: روح کو تازہ رکھنے والی شراب ۔ محبت نوعِ انساں کی : انسانوں کے ساتھ محبت سے پیش آنا ۔ بے جام و سبو: شراب کے پیالے کے بغیر ۔
مطلب: میں جو شراب کے بغیر ہی مست و مخمور رہتا ہوں تو اس کا سبب محبت ہے ۔ محبت ہی فی الواقع ایسا جذبہ ہے جس کے سبب ذہنی اور نفسیاتی سطح پر بیمار قو میں شفا پاتی ہیں ۔ اور اسی کے سبب ان میں بیداری کی لہر پیدا ہوتی ہے ۔
محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے کیا ہے اپنے بختِ خفتہ کو بیدار قوموں نے
معانی: بیمار قو میں : مراد باہم لڑنے جھگڑنے والی قو میں ۔ بختِ خفتہ: سویا ہوا نصیبہ ۔ بیدار کرنا: نصیبہ جگانا ۔
مطلب: محبت ہی فی الواقع ایساجذبہ ہے جس کے سبب ذہنی اور نفسیاتی سطح پر بیمار قو میں شفا پاتی ہیں ۔ اور اس کے سبب ان میں بیداری کی لہر پیدا ہوتی ہے ۔ یہاں اقبال کی مراد یہی ہے کہ نفرت اور افتراق قوموں کو تباہی کے اندھیرے میں دھکیل دیتے ہیں ۔ یہ محبت ہی ہے جو انہیں دنیا میں کامیاب و کامران کرتی ہے ۔
بیابانِ محبت دشتِ غربت بھی، وطن بھی ہے یہ ویرانہ قفس بھی، آشیانہ بھی، چمن بھی ہے
معانی: بیابان: جنگل، ویرانہ ۔ دشتِ غربت: پردیس کا جنگل ۔ ویرانہ: غیر آباد جگہ ۔ قفس: پنجرہ ۔
مطلب: نتیجے کے طور پر علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ محبت ہی اس عالم رنگ و بو میں سب کچھ ہے اور اس سے یہ کائنات قائم ہے ۔ یہ درست ہے کہ محبت کسی مرحلے پر صحرا اور ویرانے کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے ۔ اور کہیں وطن بھی اس کا مظہر بن جاتا ہے ۔ کہیں قفس ، کہیں ویرانہ، کہیں آشیانہ اور کسی مرحلے پر چمن کا روپ محبت ہی دھار لیتی ہے ۔
محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے صحرا بھی جرس بھی، کارواں بھی، راہبر بھی، راہزن بھی ہے
معانی: جرس: گھنٹا ۔ راہبر: راستہ دکھانے والا ۔
مطلب: محبت ہی وہ جذبہ ہے کہ جو منزل اور کہیں صحرا، کہیں اہل کارواں کے لیے آواز جرس کی مانند تو کہیں رہبری بھی کرتی ہے اور کبھی راہزنی بھی ۔
مرض کہتے ہیں سب اس کو، یہ ہے لیکن مرض ایسا چھپا جس میں علاجِ گردشِ چرخِ کہن بھی ہے
معانی:گردشِ چرخِ کہن: پرانے آسمان کا چکر، مراد نصیبے کا چکر ۔
مطلب: یوں تو سب لوگ محبت کو ایک مرض سے تعبیر کرتے ہیں لیکن یہ ایسا مرض ہے جس میں کائنات کے جملہ امراض کا علاج پوشیدہ ہے ۔ اس جذبے سے جب دل جلتا ہے تو سراپا نور میں ڈھل جاتا ہے اس لیے کہ یہ ایسا ویرانہ ہے جو جل کر شمع محفل کی تقویت کا سبب بنتا ہے ۔
جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمعِ انجمن بھی ہے
معانی: سراپا نور ہو جانا: پورے طور پر روشنی بن جانا ۔ سوزاں : جلتا ہوا، جلنے والا ۔ شمع انجمن: مرا د محفل کی رونق ۔
مطلب:اس جذبے سے جب دل جلتا ہے تو سراپا نور میں ڈھل جاتا ہے اس لیے کہ یہ ایسا پروانہ ہے جو جل کر شمع محفل کی تقویت کا سبب بنتا ہے ۔
وہی اک حُسن ہے، لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں یہ شیریں بھی ہے گویا، بیستوں بھی، کوہکن بھی ہے
معانی: وہی اک حُسن: مراد محبوب حقیقی کا حُسن ۔ شیریں : فرہاد کی محبوبہ ۔ بیستوں : ایران کا وہ پہاڑ جسے فرہاد نے شیریں کے کہنے پر دودھ کی نہر بہانے کے لیے کھودا تھا ۔ کوہکن: پہاڑ کھودنے والا، مراد فرہاد ۔
مطلب: محبت تو ایسا حسن ہے جو ہر شے میں نظر آتا ہے ۔ دیکھا جائے تو شیریں ، کوہ بیستوں ، فرہاد میں بڑا فرق ہے تاہم محبت کے جذبے نے ہی انہیں ایک دوسرے سے منسلک کر رکھا ہے ۔
اجاڑا ہے تمیزِ ملت و آئیں نے قوموں کو مرے اہلِ وطن کے دل میں کچھ فکرِ وطن بھی ہے
معانی: اجاڑا ہے: تباہ کیا ہے ۔ تمیز ملت و آئیں : تعصب کی بنا پر مذہب ، فرقوں میں فرق کرنے کا عمل ۔ فکرِ وطن: وطن کی حفاظت کا خیال ۔
مطلب: نفرت و افتراق نے ہی قوموں کی بربادی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ لیکن میرے اہل وطن اس حقیقت سے بے خبر نظر آتے ہیں ۔ انہیں وطن کی کوئی فکر نہیں ۔
سکوت آموز طولِ داستانِ درد ہے، ورنہ زباں بھی ہے ہمارے منہ میں اور تابِ سخن بھی ہے
معانی: سکوت آموز: خاموشی سکھانے والا ۔ طولِ داستان: کہان، بات کرنے کی طوالت ۔
مطلب: یہ داستان درد اور بھی طویل ہو سکتی تھی کہ میرے تخیل میں بڑی وسعت ہے ۔
نمی گردید کوتہ رشتہَ معنی رہا کردم حکایت بود بے پایاں ، بخاموشی ادا کردم
مطلب: مضمون، باتوں کا سلسلہ ختم ہونے ہی کو نہ آ رہا تھا، داستان بہت طویل تھی اس لیے میں نے وہ خاموشی سے، یعنی خاموش رہ کر بیان کر دی ۔ (یہ شعر نظیری نیشاپوری کا ہے)