شمع و پروانہ
پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع! پیار کیوں یہ جانِ بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں
معانی: جانِ بے قرار: محبت کے سبب بے چین روح ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال شمع سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کرتے ہیں کہ تجھ میں ایسی کون سی خصوصیت ہے کہ پروانہ تجھ سے اتنی والہانہ محبت کرتا ہے ۔ وہ تو اس قدر تیرے لیے بیتاب رہتا ہے کہ اپنی جان بھی تجھ پر قربان کرنے کے لیے تیار ہے ۔
سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے آدابِ عشق تو نے سکھائے ہیں کیا اسے
معانی : سیماب وار: پارے کی طرح، مراد ہر گھڑی بے چین ۔
مطلب: یوں لگتا ہے جیسے تیری محبت اسے پارے کی طرح بیقرار رکھتی ہے ۔ تو ہی بتا دے کہ عشق و محبت کے یہ آداب کیا تو نے اسے سکھائے ہیں
کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا پھونکا ہوا ہے کیا تری برقِ نگاہ کا
معانی: پھونکا ہوا: جلایا ہوا ۔ برقِ نگاہ: نگاہوں کی بجلی ۔
مطلب: حیرت ہے کہ تیرے گرد یہ ہر لمحہ طواف کرتا رہتا ہے اور کیا تیری برق نظر نے اسے جلا کر راکھ کر دیا ہے ۔
آزارِ موت میں اسے آرامِ جاں ہے کیا شعلے میں تیرے زندگیِ جاوداں ہے کیا
معانی: آزار: تکلیف، دکھ ۔ آرامِ جاں : روح کا سکون ۔ زندگی جاوداں : ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ۔
مطلب: کیا تیرے شعلے میں اسے اپنے لیے حیات جاوداں نظر آتی ہے جو اس طرح موت کو قبول کرنے پر آمادہ رہتا ہے ۔
غم خانہَ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو اس تفتہ دل کا نخلِ تمنا ہرا نہ ہو
معانی: غم خانہَ جہاں : مراد یہ دنیا جو دکھوں کا گھر ہے ۔ تفتہ دل: جس کا دل جلا ہو، مراد عشق ۔ نخلِ تمنا: خواہش کا درخت ۔ ہرا ہونا: سرسبز ہونا ۔
مطلب: اے شمع! یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے اس غم کدے میں تیری روشنی موجود نہ ہوتو پروانے کا دل ناصبور کبھی بھی آسودہ نہیں ہو سکتا ۔
گرنا ترے حضور میں اس کی نماز ہے ننھے سے دل میں لذتِ سوز و گداز ہے
معانی: حضور: خدمت ۔ لذتِ سوز و گداز: عشق کی تپش اور گرمی کا مزہ ۔
مطلب: اس کے ننھے سے دل میں عشق و محبت کا سوز و گداز اتنا شدید ہے کہ تجھ پر فدا ہونے کو یہ عبادت تصور کرتا ہے ۔
کچھ اس میں جوشِ عاشقِ حُسنِ قدیم ہے چھوٹا سا طور تُو، یہ ذرا سا کلیم ہے
معانی: حسنِ قدیم: مراد محبوب حقیقی کا حسن و جمال ۔ کلیم: مراد حضرت موسیٰ جیسا ۔
مطلب: اے شمع! مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پروانے میں ماضی کے روایتی عشق کا جذبہ بھرپور اندا ز میں موجود ہے اور اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ تیرا وجود ایک چھوٹے سے کوہ طور کی مانند ہے اور یہ پروانہ ایک ننھے سے کلیم کی حیثیت رکھتا ہے کہ جلوہ دیکھتے ہی بے ہوش ہو جائے ۔
پروانہ، اور ذوقِ تماشائے روشنی کیڑا ذرا سا ، اور تمنائے روشنی
معانی: تماشائے روشنی: روشنی دیکھنے کا عمل ۔
مطلب: یہ پروانہ ہر چند کہ ننھا سا کیڑا ہے تا ہم اس میں روشنی پر نثار ہونے کا بلند جذبہ اور ذوق بہر حال موجود ہے ۔