Please wait..

وطنیت
(یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے )

 
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
ساقی نے بِنا کی روشِ لُطف و ستم اور

معانی: جم: مراد قدیم ایرانی بادشاہ جمشید، جس نے پہلی مرتبہ انگور سے شراب تیار کروائی ۔ ساقی: شراب پلانے والا، مراد انگریز حکمران ۔ بِنا کی: بنیاد رکھی ۔
مطلب: یہ نظم اس اعتبار سے خاصی اہم ہے کہ اس میں اقبال نے وطنیت کے حوالے سے واضح طور پر اپنا سیاسی نقطہ نظر پیش کیا ہے ۔ اس میں فرماتے ہیں یہ دور جس میں ہم زندہ ہیں وہ اپنی نئی روایات کے ساتھ برسر عمل ہے یعنی پرانی اقدار مٹ رہی ہیں اور نئی قدریں جنم لے رہی ہیں ۔ تہذیب کے اجارہ دارو رہنماؤں نے ایسی روش کو فروغ دیا ہے جو ظلم اور التفات دونوں کیفیتوں سے ہم آہنگ ہے ۔

 
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

معانی: مسلم: مراد ملت اسلامیہ ۔ حرم: مراد مسلک ، دستور ۔ تہذیب کے آزر: مراد موجودہ تہذیب جو انسان کو خدا سے دور رکھتی ہے ۔ ترشوانا: بنوانا ۔
مطلب: چنانچہ دوسری تہذیبوں کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی اپنی تہذیب کو چھوڑ کر ایک نیا کعبہ بنا لیا ہے یعنی ملت اسلامیہ نے اپنے تہذیب و کلچر کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کو اپنا لیا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جدید تہذیب کا مشہور بت تراش آزر اب نئے بت تراشنے میں مگن ہے ۔

 
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

معانی: تازہ خدا: نئے نئے آقا ۔ مذہب کا کفن: مراد مذہب کی موت، خاتمہ ۔
مطلب: چنانچہ اس نے اب تو جو بت تراشے ان میں سب سے بڑا اور بلند و بالا بت وطن ہے اس بت کو جو لباس پہنایا ہے وہ مذہب اور عقیدے کے لیے کفن کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یعنی وطن کی پرستش مذہب اور عقائد کے منافی ہے ۔

 
یہ بُت کہ تراشیدہَِ تہذیبِ نوی ہے
غارتِ گر کاشانہَ دینِ نبوی ہے

معانی: غارت گر: تباہ کرنے والی ۔ کاشانہ: گھر ۔ دینِ نبوی: دین اسلام ۔
مطلب: نئی تہذیب سے وطنیت کا تصور عبارت ہے اور یہ تصور ایسا ہے جو آنحضرت کے دین اور ان کی تعلیمات کی نفی کرتا ہے ۔

 
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

معانی: مصطفوی: مراد حضور اکرم محمد مصطفیٰ کا پیرو، مسلمان ۔
مطلب: لیکن اے دین محمدی کے پیروکار! توحید ایسی قوت ہے جس نے تجھے ہر مرحلے پر تقویت پہنچائی ہے ۔ تیرا وطن کوئی مخصوص خطہ ارض نہیں بلکہ عملی سطح پر اسلام ہی تیرا وطن ہے ۔ نا ہی تیری نسبت کسی اور شخصیت سے ہے ۔

 
نظارہِ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے

معانی: نظارہَ دیرینہ: پرانا منظر، مراد مذہب سے اسلاف والی محبت ۔
مطلب: بلکہ تو تو حضرت محمد مصطفی کا پیرو کار ہے چنانچہ تجھ پر لازم ہے کہ چودہ سو سال کی قدیم شان و شوکت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے وطنیت کے تصور کو تباہ کر دے ۔

 
ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزادِ وطن صورتِ ماہی

معانی: قیدِ مقامی: خاص سرزمین کو وطن قرار دینا ۔ آزادِ وطن: جغرافیائی حدوں سے آزاد ۔ صورتِ ماہی: مچھلی کی طرح ۔
مطلب: اقبال اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے ملت اسلامیہ کے پیروکاروں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے فرزند توحید! اس حقیقت کو جان لے کہ اگر کوئی ایک مخصوص خطہ ارض کا اسیر اور قیدی ہو کر رہ جائے تو اس کا منطقی نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا ۔ اگر تو اس کائنات کو ایک سمندر کی مانند جان لے تو یہاں تیری بودوباش ایک مچھلی کی طرح ہونی چاہیے کہ مچھلی پانی کی حدود میں کسی ایک مقام پر نہیں ٹھہرتی ۔

 
ہے ترکِ وطن سُنتِ محبوبِ الہٰی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی

معانی: ترکِ وطن: خاص سرزمین سے ہجرت کر جانا ۔ سنت: طریقہ ۔ محبوبِ الہٰی:مراد حضور اکرم ۔
مطلب: ترکِ وطن یعنی ہجرت کرنا سنت رسول اللہ ﷺ ہے ۔ یہ تیری ذمہ داری ہے کہ نبوت کی گواہی دے یعنی فرمان محمدی کے مطابق وطن کے تصور کی نفی کر ۔

 
گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

معانی: گفتارِ سیاست: سیاسی بات چیت ۔ ارشادِ نبوت: مراد حضور اکرم نے جو کچھ فرمایا ۔
مطلب: یوں سیاسیات کے حوالے سے بے شک وطن کا تصور مختلف ہے لیکن ارشاد نبوی کے حوالے سے وطن ایک بے معنی شے ہے ۔

 
اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے

معانی: رقابت: دشمنی ۔ تسخیر: قابو میں لانا، فتح کرنا ۔ مقصودِ تجارت: تجارت کا مقصد ۔
مطلب: دنیا بھر کی قوموں کے مابین رقابت کا جذبہ وطنیت کے سبب ہی پیدا ہوا ہے ۔ اس کے سبب تجارت کا مقصد بھی دوسرے ممالک کو تسخیر کرنا ہے ۔

 
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

مطلب: اس سے بڑھ کر اور کیا برائی ہو گی کہ سیاست میں صداقت اور سچائی کا جذبہ اگر ناپید ہے تو اس کا باعث بھی وطنیت کا تصور ٹھہرتا ہے ۔ جو لوگ اور قو میں کمزور ہوتی ہیں ان کو تباہ و برباد کرنے میں بھی اس تصور کا بڑا حصہ ہے ۔

 
اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

معانی: قومیت اسلام: مراد ملت سے متعلق اسلام کا نظریہ ۔ جڑ کٹنا: تباہ ہونا، مٹنا ۔
مطلب: حد تو یہ ہے کہ اس کے سبب مخلوق خداوندی مختلف قوموں میں بٹ کر رہ گئی ہے ۔ اسلامی تصور قومیت کی جڑ کاٹنے کا باعث بھی یہی ہے ۔