اپنے شعر سے
ہے گلہ مجھ کو تری لذتِ پیدائی کا تو ہوا فاش تو ہیں اب مرے اسرار بھی فاش
معانی: گلہ ہے: شکایت ہے ۔ لذت پیدائی: ظاہر ہونے کی چاشنی ۔ فاش ہونا: بھید کا کھلنا ۔ اسرار: سر کی جمع، راز بھید ۔
مطلب:شاعری دراصل شاعر کے ذاتی اور پوشیدہ جذبات و افکار کی نمائندگی کرتی ہے ۔ زمانہ حاضر چونکہ ان جذبات و افکار کا حامل نہیں بن سکتا جو اقبال کے سینے میں انگڑائی لے رہے ہیں اس لیے وہ اپنی شاعری سے خود ہی شکایت کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ تجھے ظاہر ہونے کی چاشنی نے وجود دیا ہے ۔ اس دور میں تجھے ظاہر نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ اب جب کہ تو ظاہر ہو گئی ہے تو تجھ پر لازم ہے کہ وہ بھید جو میرے سینے میں چھپے ہوئے ہیں ان کو بھی فاش کر دے ۔ یعنی پوری طرح میرے پوشیدہ اور باطنی جذبات و افکار کی نمائندہ بن جا ۔
شعلہ سے ٹوٹ کر مثلِ شرر آوارہ نہ رہ کر کسی سینہَ پُرسوز میں خلوت کی تلاش
معانی: شرر: چنگاری ۔ آوارہ نہ رہ ۔ بے مقصد نہ پھر ، بے کار نہ رہ ۔ سینہ پرسوز: تپش اور حرارت سے بھرا ہوا سینہ ۔ خلوت: تنہائی ۔ شعلہ: آگ کی لپٹ ۔ مثل: مانند ۔
مطلب: اقبال نے یہاں شعلہ اور چنگاری کی مثال دے کر اپنے مقصد کو بیان کیا ہے ۔ جب آگ میں سے چنگاری نکلتی ہے تو بے مقصد ہوا میں گم ہو جاتی ہے ۔ وہ کسی چیز کو جلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔ اپنی شاعری سے اقبال اس پس منظر میں یہ کہہ رہے ہیں کہ تو بھی میرے سینے کی آگ سے نکل کر چنگاری کی طرح بے مقصد اور بے کار نہ رہ جانا بلکہ ایسے سینوں کو تلاش کر کے کہ جن میں حرارت اور تپش ہے ۔ ان کی خلوت میں اپنی جگہ بنا لینا ۔ کیونکہ میری شاعری ایسے سینوں کی ہی اہل ہے ۔ بے سوز سینے اسے نہ برداشت کر سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں ۔