Please wait..

محراب گل افغان کے افکار
(۱۴)

 
بے جراَت رندانہ ہر عشق ہے روباہی
بازو ہے قوی جس کا وہ عشق ید اللہی

معانی: بے جراَت رندانہ: رندوں کی طرح کی جرات یا بے باکی کے بغیر ۔ روباہی: لومڑی کی طرح کی عیاری، مکاری اور کمزوری ۔ قوی: مضبوط ۔ ید اللہی: اللہ کا ہاتھ ۔
مطلب: وہ عشق جس میں رندوں کی طرح کی جراَت نہ ہو اور وہ مصلحت کا شکار ہو کر بے باکانہ بہادری سے کام نہ لے وہ عشق، عشق نہیں بلکہ ہوس ہے ۔ ایسا عشق لومڑی کی طرح مکر و فریب سے کام لیتا ہے ۔ اصل عاشق وہ ہے جس کے بازو اس عشق سے مضبوط اور طاقت والے ہوں جس عشق میں اللہ کا ہاتھ ہو ۔ وہ عشق جو صرف اعلیٰ مقاصد اور ارفع اقدار رکھتا ہو ایسے عشق میں شیروں کی طرح کی بہادری ہو گی لومڑی کی طرح کی مکاری نہیں ہو گی ۔

 
جو سختی منزل کو سامانِ سفر سمجھے
اے وائے تن آسانی! ناپیدا ہے وہ راہی

معانی: تن آسا نی: آرام طلبی ۔ اے وائے: افسوس ہے ۔ ناپید: ملتانہیں ہے ۔ راہی: راہ پر چلنے والا، مسافر ۔
مطلب: افسوس ہے کہ آج وہ مسافر نظر نہیں آتا جو منزل تک پہنچنے میں پیش آنے والی مصیبتوں کو اپنے سفر کا سامان سمجھے نہ کہ سفر کی آسائشوں اور آرام طلبی کو منزل پر پہنچنے کا ذریعہ سمجھے ۔ آج کی دور کے مسلمان اور ان کے جوان ان سختیوں اور مشقت کے عادی نہیں رہے جن سے ان کے بزرگ مانوس تھے ۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آرام طلبی نے انہیں اپنی منزل سے نا آشنا کر دیا ہے اور یہ بڑی افسوسناک بات ہے ۔

 
وحشت نہ سمجھ اس کو اے مردِک میدانی
کہسار کی خلوت ہے تعلیمِ خود آگاہی

معانی: وحشت: جنون، دیوانگی، بیابانوں میں رہنا ۔ مردک میدانی: میدان کے رہنے والے چھوٹے آدمی ۔ کہسار: پہاڑوں کا سلسلہ ۔ خلوت: تنہائی ۔ خود آگاہی: خودشناسی، خودی ۔
مطلب: ان اشعار میں چونکہ افغانوں کی بات ہے اور وہ برصغیر کے شمال کے پہاڑے سلسلے میں آباد ہیں ۔ اس لیے ان لوگوں کو جو میدانوں میں رہتے ہیں محراب گل خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان پہاڑی سلسلوں میں رہنے والے لوگوں کو تم وحشی، دیوانہ یا تہذیب سے نا آشنا نہ سمجھو ۔ تم ان کے مقابلے میں چھوٹے لوگ ہو ۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان پہاڑوں کی تنہائی افغانوں کو خودداری ، خود شناسی اور خودی کی تعلیم دیتی ہے جب کہ تم اے میدان کے لوگو مغربی اثرات کے سبب اپنی خودی سے نا آشنا ہو چکے ہو اور یہ پہاڑی لوگ جو بظاہر وحشیوں کی طرح بیابانوں میں رہتے نظر آتے ہیں مغربی اثرات سے بری ہونے کی بنا پر اپنی معرفت سے آگاہ ہیں ۔

 
دنیا ہے روایاتی عقبیٰ ہے مناجاتی
در باز دو عالم را ایں است شہنشاہی

معانی: روایات: روایت کی پابند ۔ عقبیٰ: آخرت ۔ مناجاتی: دعا کی پابند ۔ درباز: چھوڑ دے ۔ دوعامل را: دونوں جہان کو ۔ این است: یہ ہے ۔
مطلب: اللہ کے آزاد بندے جن کا مقصد صرف اللہ سے تعلق قائم رکھنا ہوتا ہے دونوں جہانوں سے بے نیاز ہوتے ہیں ۔ دنیا چونکہ دنیاوی روایات کی پابند ہوتی ہے اور آخرت صرف دعائیہ یا مذہبی ماحول میں گھری ہوئی ہو گی اس لیے اللہ کے بندوں کو نصیحت کرتے ہوئے محراب گل کہتا ہے کہ تم دونوں جہانوں کو چھوڑ دو ۔ دنیا اور آخرت دونوں سے بے نیاز ہو کر صرف اللہ کے ہو جاوَ ۔ یہی اصل بادشاہی ہے ۔