صبح کا ستارہ
لُطفِ ہمسائیگیِ شمس و قمر کو چھوڑوں اور اس خدمت پیغام سحر کو چھوڑوں
معانی: صبح کا ستارہ: ستارا زُہرہ جو صبح کے وقت طلوع اور بہت روشن ہوتا ہے ۔ لطفِ ہمسائیگی: ایک دوسرے کے قریب رہنے کا مزہ ۔
مطلب: صبح کا ستارہ عالم یاس میں یوں گویا ہوتا ہے کہ اب تو یہ جی چاہتا ہے کہ سورج اور چاند کی قربت سے دست کش ہو جاؤں اور اپنے طلوع ہونے سے آمدِ صبح کا جو پیغام دیتا ہوں اس ذمہ داری سے بھی جان چھڑا لوں ۔
میرے حق میں تو نہیں تاروں کی بستی اچھی اس بلندی سے ز میں والوں کی پستی اچھی
معانی: بستی: آبادی، مراد آسمان ۔
مطلب: میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آسمان پر جو ستاروں کی بستی قائم ہے اس میں رہائش کسی طرح مناسب نہیں اس کے برعکس یہ جو بلندی ہے اس کی نسبت زمین کی پستی میرے لیے زیادہ مناسب ہے ۔
آسماں کیا، عدم آبادِ وطن ہے میرا صبح کا دامنِ صد چاک کفن ہے میرا
معانی: عدم آباد: فنا کی دنیا ۔ دامنِ صد چاک: قمیص کی ایسی جھولی جو کئی جگہ سے پھٹی ہو ۔ کفن: وہ سفید کھلا کپڑا جس میں مردے کو لپیٹا جاتا ہے ۔
مطلب: میرا وطن آسمان نہیں بلکہ وہ جہان فانی ہے جہان بعد فنا ہر شخص کا پہنچنا مقدر ہے میری تو یہ کیفیت ہے آمدِ صبح کے ساتھ ہی اپنی عمر طبعی تمام کر کے راہی ملک عدم ہو جاتا ہوں ۔
میری قسمت میں ہر روز کا مرنا جینا ساقیِ موت کے ہاتھوں سے صبوحی پینا
معانی: ساقیِ موت: موت کی شراب پلانے والا، مراد سورج ۔ صبوحی: صبح کی شراب ، مراد ستارے کا غروب ہونا ۔
مطلب: ہر روز جینا اور مرنا میر ا مقدر بن کررہ گیا ہے یعنی ہر روز طلوع ہوتا ہوں اور دن نکلتے ہی فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہوں ۔
نہ یہ خدمت ، نہ یہ عزت، نہ یہ رفعت اچھی اس گھڑی بھر کے چمکنے سے تو ظلمت اچھی
معانی: گھڑی بھر: تھوڑی دیر ۔
مطلب: اس نوع کی ذمہ داری، عزت اور بلندی آخر کس کام کی کہ تھوڑی دیر چمک کر اپنے وجود سے آشنا کرایا اور بس ۔ ایسی روشنی سے تو بخدا تاریکی ہی برتر ہے ۔
میری قدرت میں جو ہوتا تو نہ اختر بنتا قعرِ دریا میں چمکتا ہوا گوہر بنتا
معانی: قدرت: مرا د اختیار ۔ اختر: ستارہ ۔ قعرِ دریا: سمندر کی گہرائی ۔ گوہر: موتی ۔
مطلب: صبح کا ستارہ کہتا ہے کہ اگر میرے اختیار میں کچھ ہوتا تو ستارہ بننے کی بجائے سمندر کی تہہ میں موتی بن کر رہنا زیادہ پسند کرتا ۔
واں بھی موجوں کی کشاکش سے جو دل گھبراتا چھوڑ کر بحر، کہیں زیبِ گلو ہو جاتا
معانی: واں : یعنی سمندر میں ۔ کشاکش: کھینچا تانی ۔ بحر: سمندر ۔ زیبِ گلو: گلے کی سجاوٹ ۔
مطلب: اگر سمندر کی تہہ میں بھی موجوں کے ہچکولوں سے دل گھبراتا تو سمندر کو خیر آباد کہہ کر کسی حسین کے گلے کی زینت بن جاتا ۔
ہے چمکنے میں مزا حُسن کا زیور بن کر زینتِ تاجِ سرِ بانوئے قیصر بن کر
معانی: تاجِ سرِ بانوئے قیصر: روم کے بادشاہ کی ملکہ کے سر کا تاج ۔
مطلب: اس لیے کہ آسمان کی بلندی پر چمکنے میں وہ لطف نہیں جو کسی حسین کے زیور کی چمک میں ہوتا ہے ۔ یا کسی شہنشاہ کی ملکہ کے تاج کی آرائش بننے میں ممکن ۔
ایک پتھر کے جو ٹکڑے کا نصیبا جاگا خاتمِ دستِ سلیمان کا نگیں بن کر رہا
معانی: نصیبا جاگا: قسمت چمکی ۔ خاتمِ دستِ سلیماں : حضرت سلیمان کے ہاتھ کی انگوٹھی ۔ نگیں : نگینہ ۔
مطلب: اس لیے کہ وہ جو دیکھنے میں ایک معمولی پتھر تھا لیکن اس کا نصیب جاگا تو حضرت سلیمان کی انگوٹھی کا نگینہ بن گیا ۔
ایسی چیزوں کا مگر دہر میں ہے کام شکست ہے گہر ہائے گراں مایہ کا انجام شکست
معانی: شکست: ٹوٹنے کا عمل ۔ گہر ہائے گراں مایہ: بہت قیمتی موتی ۔
مطلب: لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس نوع کی اشیاء بالعموم دنیا میں شکست و ریخت سے دوچار ہو کر رہتی ہیں ۔ چنانچہ بیش قیمت اور نایاب قسم کے موتی کا انجام بھی بالاخر ریزہ ریزہ ہوتا ہے ۔
زندگی وہ ہے کہ جو ہو نہ شناسائے اجل کیا وہ جینا ہے کہ ہو جس میں تقاضائے اجل
معانی: شناسائے اجل: موت، فنا سے واقف ۔ تقاضائے اجل: مراد لازمی فنا ہونا ۔
مطلب: بے شک حقیقی زندگی تو وہ ہے جو موت سے آشنا نہ ہو ۔ وہ جینا تو لاحاصل ہے جس کا انجام موت ہو ۔
ہے یہ انجام اگر زینتِ عالم ہو کر کیوں نہ گر جاؤں کسی پھول پہ شبنم ہو کر
مطلب: اگر کائنات کی زینت بننے کے باوجود انجام بالاخر فنا ہونا ہی ہے تو کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ شبنم کی طرح پھول پر قربان ہو جاؤں ۔
کسی پیشانی کے افشاں کے ستاروں میں رہوں کسی مظلوم کی آہوں کے شراروں میں رہوں
معانی: شراروں : چنگاریوں ۔
مطلب: میں تو خود کو اس امر کا اہل سمجھتا ہوں کہ کسی حسین کے ماتھے کی افشاں کا روپ دھار لوں یا پھر کسی مظلوم کی آہوں میں منتقل ہو جاؤں ۔
اشک بن کر سرِ مژگاں سے اٹک جاؤں میں کیوں نہ اس بیوی کی آنکھوں سے ٹپک جاؤں میں
معانی: اشک: آنسو ۔ سرِ مژگاں : پلکوں پر ۔
مطلب: میں کیوں نے اس بیوی کی آنکھوں سے آنسو بن کر ٹپک پڑوں ۔
جس کا شوہر ہو رواں ، ہو کے زرہ میں مستور سوئے میدانِ وغا، حبِ وطن سے مجبور
معانی: مستور: چھپا ہوا، مراد پہنے ہوئے ۔ سوئے میدانِ وغا: میدانِ جنگ کی طرف ۔
مطلب: جس کا شوہر زرہ پہن کر عازم جنگاہ ہوا چاہتا ہے کہ حب وطن کا تقاضا ہی یہ ہے ۔
یاس و امید کا نظارہ جو دکھلاتی ہو جس کی خاموشی سے تقریر بھی شرماتی ہو
معانی: یاس: نا امیدی ۔
مطلب: اس لمحے وفادار بیوی امید و بیم کا شکار ہو اور اس کی خاموشی داخلی جذبوں کی ترجمانی کر رہی ہو ۔
جس کو شوہر کی رضا تابِ شکیبائی دے اور نگاہوں کو حیا طاقتِ گویائی دے
معانی: تابِ شکیبائی: صبر کی طاقت ۔ طاقتِ گویائی: بولنے کی قوت ۔
مطلب: شوہر سے فرقت اور جدائی کے باوجود وہ،مجسم صبر بنی ہوئی ہو
زرد رخصت کی گھڑی عارضِ گل گوں ہو جائے کششِ حُسنِ غم ہجر سے افزوں ہو جائے
معانی: کششِ حسن: خوبصورتی کی دل کشی ۔ غم ہجر: محبوب سے دوری کا دکھ ۔ افزوں : زیادہ ۔
مطلب: بیوی کا پھول جیسا سرخ و سفید چہرہ شوہر کی جدائی کے غم سے زرد ہو جائے لیکن یہ بھی ہو کہ جدائی کا غم اس کے حسن کی کشش کو دوبالا کر دے ۔
لاکھ وہ ضبط کرے پر میں ٹپک ہی جاؤں ساغرِ دیدہَ پرنم سے چھلک ہی جاؤں
معانی: ساغرِ دیدہَ پرنم: آنسووَں سے بھری ہوئی آنکھوں کا جام ۔ چھلک جانا: لبالب ہو کے نیچے گر جانا ۔
مطلب: وہ کتنا ہی ضبط کرے اس کے باوجود میں آنسو بن کر اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑوں ۔
خاک میں مل کے حیاتِ ابدی پا جاؤں عشق کا سوز زمانے کو دکھاتا جاؤں
معانی: حیاتِ ابدی: ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ۔ سوز: تپش، گرمی ۔
مطلب: اس لمحے خاک میں مل کر حیات ابدی حاصل کر لوں کہ سوز عشق کا حاصل ہی یہی ہے اور یہ حقیقت ، میں سارے زمانے پر آشکار کرنے کا خواہاں ہوں ۔