Please wait..

گدائی

 
میکدے میں ایک دن اک رندِ زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا

معانی: رند زیرک: سمجھدار شرابی ۔ گدائے: فقیر ۔
مطلب: اقبال کے بقول یہ نظم مصنوعی سطح پر فارسی زبان کے ممتاز اور قادر الکلام شاعر انوری کی نظم سے ماخوذ ہے لیکن اقبال نے جس انداز میں اپنے اشعار میں اس موضوع کا احاطہ کیا ہے وہ دیکھا جائے تو عملاً ان کے کمال فن کی دلیل ہے ۔ نظم کے اشعار پر ان کی گرفت اس قدر مستحکم ہے کہ بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے ۔ فرماتے ہیں ایک رند شراب خانے میں ایک مے نوش سے جس کی گفتگو دانائی پر مبنی تھی یوں گویا ہوا کہ ہمارے شہر کا حاکم عملاً ایک بھک منگے سے کم نہیں ۔ ظاہر ہے کہ دوسرے بھک منگوں کی طرح اس میں بھی حیا اور غیرت کا کلی طور پر فقدان ہے ۔

 
تاج پہنایا ہے کس کی بے کلاہی نے اسے
کس کی عریانی نے بخشی ہے اسے زریں قبا

معانی: بے کلاہی: تاج کا نہ ہونا ۔ عریانی: ننگا ہونا ۔ زریں قبا: سنہری لباس ۔
مطلب: اپنے دعوے کی وضاحت کرتے ہوئے اس نے استدلال کیا کہ دیکھنا یہ ہے کہ کتنے لوگوں کی دستار چھین کر اس نے اپنے سر کا تاج بنوایا ہے اور کتنے لوگوں کو بے لباس کر کے اس کے جسم کے لیے قبائے زریں تیار ہوئی ہے ۔

 
اس کے آبِ لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید
تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا

معانی: لالہ گوں : شراب ۔ دہقاں : کسان ۔ کیمیا: سونا ۔
مطلب: کسانوں کی خون پسینے کی کمائی سے خراج اور ٹیکس کے نام سے وصول کر کے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہوئے شراب کے جام لنڈھاتا ہے اور غریب کسانوں کے کھیت کی مٹی اس کے لیے کیمیا ثابت ہو رہی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ حاکم شہر اپنے مفادات اور عیش پرستی کے لیے محنت کشوں کا استحصال کرتا ہے یعنی خود محنت سے جی چرا کر دوسروں کی محنت کی کمائی کو حلال سمجھتا ہے ۔

 
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے، مردِ غریب و بے نوا

مطلب: صورت حال یہ ہے کہ اس کے دولت کدے میں جو چیز بھی موجود ہے وہ چھینی ہوئی یا مانگی ہوئی ہے ۔ اور جن لوگوں سے یہ اشیاء حاصل کی گئی ہیں وہ غریب اور مفلس لوگ ہیں جو شب و روز خون پسینہ بہا کر اپنی روزی اور دوسری ضروریات زندگی فراہم کرتے ہیں ۔ لیکن حاکم شہر ہے کہ بڑی ڈھٹائی اور بے غیرتی کے ساتھ پیداواری اشیاء کا بیشتر حصہ مفت میں ہڑپ کر جاتا ہے ۔

 
مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطاں سب گدا

مطلب: دراصل حقیقت یہ ہے کہ ساری صورت احوال کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ خواہ کوئی صدقہ یا بھیک مانگے یا پھر خراج طلب کرے وہ اور کچھ نہیں عملاً بھکاری اور فقیر ہے اوراس حقیقت کو کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے بات یہی ہے کہ فقیر ہو یا بادشاہ عملاً وہ بھکاری اور گداگر ہی ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ان سب کی زندگیاں بھیک پر ہی گزر رہی ہیں ۔
اقبال نے جس حکیمانہ انداز میں گداگری کے مسئلے کا تجزیہ کیا ہے وہ معاشرے کے لیے دیکھا جائے تو درس عبرت ہے ۔ تاہم وہ لوگ جس سارے قضیے کے ذمہ دار ہیں وہ اس قدر بے حیا اور غیرت سے عاری ہیں کہ ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔