قید خانہ میں معتمد کی فریاد
اک فغانِ بے شرر سینے میں باقی رہ گئی سوز بھی رخصت ہوا جاتی رہی تاثیر بھی
معانی: فغانِ بے شرر: چنگاری سے خالی فریاد ، بے اثر ۔
مطلب: معتمد بقول علامہ اقبال اشبیلہ کا بادشاہ اور عربی زبان کا مشہور شاعر تھا ۔ ہسپانیہ کے ایک حکمران نے اسے شکست دے کر قید میں ڈال دیا ۔ اس کی نظمیں انگریزی زبان میں ترجمہ ہو کر وزڈم آف دی ایسٹ سیریز میں شاءع ہو چکی ہیں ۔ زیر شرح نظم کا ترجمہ بھی اقبال نے انگریزی زبان سے کیاہے ۔ نظم کے اس شعر میں کہا گیا ہے کہ بقول معتمد میں قید خانے کی چار دیواری میں مبحوس ہوں ۔ اس وقت مایوسی اور دل شکستگی کی صورت حال یہ ہے کہ میرا سینہ ہر قسم کے جذبہ مردانگی اور جوش و خروش سے خالی ہو چکا ہے بس لے دے کے ایک فریاد اور باقی رہ گئی ہے جس میں کوئی چنگاری دکھائی نہیں دیتی ۔ اور حد تو یہ ہے کہ فریاد میں بھی سوز باقی نہیں رہا اور وہ تاثیر سے بھی محروم ہو گئی ہے ۔
مردِ حُر زنداں میں ہے بے نیزہ و شمشیر آج میں پشیماں ہوں ، پشیماں ہے مری تدبیر بھی
معانی: مردِ حُر: مردِ آزاد ۔ زنداں : قید خانہ ۔ پشیماں : شرمسار ہوں ۔
مطلب:اس شعر میں معتمد کہتے ہیں کہ کس قدر افسوس اور حیرت کا مقام ہے کہ مجھ سا حریت پسند انسان قید خانے کی چار دیواری میں بند ہے ۔ اپنے حریف کے خلاف میں نے جو منصوبہ بندی کی تھی آج اس کا یہ خمیازہ بھگتنا پڑ ا ہے کہ میں اس غلط منصوبہ بندی کے باعث شرم سے پانی پانی ہوا جا رہا ہوں ۔
خود بخود زنجیر کی جانب کھنچا جاتا ہے دل تھی اسی فولاد سے شاید مری شمشیر بھی
مطلب: مجھے میرے دشمن نے جس زنجیر میں جکڑا ہوا ہے اب تو میرا دل بھی اسی زنجیر کی جانب کھنچا جا رہا ہے ۔ حالانکہ میں تو ہمیشہ سے صاحب شمشیر رہا ہوں ۔ زنجیر سے اس کشش کا کہیں یہ مطلب تو نہیں کہ دونوں ایک ہی فولاد سے تیار کی گئی ہوں ۔
جو مری تیغِ دو دم تھی، اب مری زنجیر ہے شوخ و بے پروا ہے کتنا خالقِ تقدیر بھی
مطلب: یہی کشش اس امر کی مظہر ہے ۔ میرے ہاتھ میں کبھی جب دو دھاری تلوار ہوتی تھی اب وہ میرے ہاتھ اور پاؤں کی زنجیر میں ڈھل گئی ہے ۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ میں جو کبھی صاحب تخت و تاج تھا اور جاں نثاروں کے ایک لشکر کا سالار بھی تھا آج قید خانے کی زنجیروں میں جکڑا پڑا ہے ۔ شاید یہ تقدیر کا کھیل ہی ہے تاہم اس سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ خالق تقدیر کس قدر بے پروا اور بے نیاز واقع ہوا ہے ۔