خودی کی تربت
خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف کہ مُشتِ خاک میں پیدا ہو آتشِ ہمہ سوز
معانی: مشتِ خاک: مٹی کی مٹھی ، مرا د ہے آدمی ۔ تربیت: اصلاح کا اور سلیقہ سکھانے کا عمل ۔ موقوف: مبنی ۔ آتشِ ہمہ سوز: سب کچھ جلا دینے والی آگ، آتش کے معنی آگ ہمہ سوز کے معنی باطل کا سب کچھ جلا دینے والی ۔
مطلب: آدمی کا جسم مٹی کا بنا ہوا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ مٹی کے اس جسم میں ایک ایسی آگ (نور) پیدا ہو سکتی ہے جو اللہ کے سوا ہر چیز کو جلا دے۔ شرط یہ ہے کہ آدمی اپنی خودی (خود شناسی) کو خاص سلیقے اور طریقے سے پا لے۔ یہ سب کچھ خودی کی تربیت اور پروش پر مبنی ہے۔
یہی ہے سرِ کلیمی ہر اک زمانے میں ہوائے دشت و شعیب و شبانی شب و روز
معانی: سر کلیمی: حضرت موسیٰ علیہ السلام کا لقب کلیم تھا کیونکہ وہ خدا سے ہم کلام ہوتے تھے ۔ سر کے معنی بھید ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اللہ سے ہم کلام ہونے کا بھید ۔ دشت: بیابان، جنگل ۔ شعیب: ایک برگزیدہ پیغمبر تھے جن کی بکریاں حضرت موسیٰ چرایا کرتے تھے اور جن کی صحبت میں ان کی تربیت ہوئی تھی ۔ شبانی: بھیڑ بکری چرانا، گڈریا بننا ۔ شب و روز: دن رات ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ اے اللہ کے بندے آ ، میں تجھے اللہ سے ہم کلام ہونے کا بھید بتاؤں ۔ اس بھید کے پیچھے جو بات ہے وہ ہر زمانے میں ایک سی رہی ہے اور رہے گی ۔ وہ بات کیا ہے وہ راز کیا ہے وہ راز یہ ہے کہ جو شخص اللہ کا مقرب بننا چاہے اسے اس حد تک اس کے قریب ہونا چاہیے کہ اس سے حضرت موسیٰ کی طرح ہم کلام ہو سکے ۔ اسے ایک تو جنگل اور بیابان میں جا کر مشاہدہ فطرت کرنا چاہیے اور آبادیوں کے شور و غل اور افراتفری سے الگ ہو کر خدا کی عبادت کرنی چاہیے ۔ دوسرے محنت کی عادت ڈالنی چاہیے ۔ دیکھیے حضرت موسیٰ اللہ کا ذکر بھی کرتے تھے اور بھیڑ بکریاں بھی چراتے تھے ۔ یہ محنت بھی تھی اور رزق حلال کا ذریعہ بھی ۔ ذکر کے لیے ریاضت اور رزق حلال ضروری شرط ہے اور تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ خدا کا راستہ بتانے والا کوئی راہبر ہو ۔ کوئی مرشد بھی ہو جو اس کی تربیت کر سکے اور دن رات اسے اللہ کے ذکر میں اور اس کے مشاہدے میں لگائے رکھے اور اپنی راہنمائی سے اس کو صحیح راہ پر رکھے اور سلوک کی منزلوں میں جو رکاوٹیں آتی ہیں ان کو دور کرے ۔ مراد یہ ہے کہ بغیر رہنما یا مرشد کے کوئی شخص بھی اللہ کو نہیں پا سکتا ۔ جس طرح حضرت موسیٰ نے حضرت شعیب کی صحبت اختیار کی ضروری ہے کہ وہ شخص جو اللہ کا قرب چاہتا ہے وہ بھی مرشد پکڑے ۔ صحیح، صادق اور اللہ کا مقرب مرشد ۔ پھر بیابانوں اور جنگلوں اور شہروں کے شور و غل سے دور ہو کر اس مرشد کی راہنمائی کے بعد جب سلوک کی منزلیں طے کر لے تو پھر دنیا کی طرف اس طرح رجوع ہو کر دل حق کے ساتھ ہو اور ساتھ کام میں ۔ پھر وہ حضرت موسیٰ کی طرح فرعونی قوتوں سے ٹکرائے ۔ انسانوں کی صحیح رہنمائی کرے اور بغیر کسی خوف و خطر کے مسند ارشاد پر بیٹھ کر اللہ کے بندوں کی اصلاح کرے ۔ طریقت کا مسلک جو مسلمانوں میں ہے اس کا یہی مقصد ہے اور یہی عمل ہے ۔ طریقت ، فقر، تصوف اور درویشی ہی کا نام ہے ۔