Please wait..

(26)

 
نہ تو ز میں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

مطلب: انسان اشرف المخلوقات ہے اس کے لیے باری تعالیٰ نے دونوں جہانوں کو پیدا کیا ہے ۔ ابلیس نے حکم خداوندی کے تحت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو اسے راندہ درگاہ کر دیا گیا ۔ اقبال کا یہ شعر کم وبیش اسی مفہوم کا آئینہ دار ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اے انسان تو نہ ز میں کے لیے ہے نا ہی آسمان کے لیے اس کے برعکس یہ جہان تیرے لیے ہے تو جہاں کے لیے نہیں ہے ۔ مراد یہ ہے کہ قدرت نے انسان کو ہر شے سے افضل قرار دیا ہے عملاً دنیا کی ہر شے انسان ہی کے تابع ہے وہ دنیا کا تابع نہیں ہو سکتا کہ یہ صورت اس کے لیے انتہائی پستی کی حامل ہے ۔ اس نے تو اپنی صلاحیتوں سے پوری کائنات کو تسخیر کرنا ہے ۔

 
یہ عقل و دل ہیں شرر شعلہَ محبت کے
وہ خار و خس کے لیے ہے یہ نیستاں کے لیے

معانی: نیستاں : بانس کا جنگل ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ عقل اور دل ایک ہی جذبے کے مظہر ہیں لیکن عقل کا دائرہ کار محدود ہے جب کہ دل کا تعلق لامتناہی سلسلے سے ہے ۔ شعر کے مطابق عقل اور دل ایک طرح سے محبت کے شعلے کی چنگاریوں کے مانند ہیں لیکن عقل اگر چنگاری کے مانند ہے تو وہ گھاس پھونس کے ڈھیر کو آگ لگا سکتی ہے جب کہ دل کی چنگاریاں تو لامحدود جنگل کو بھسم کرنے کی صلاحیت کی حامل ہیں ۔

 
مقامِ پرورشِ آہ و نالہ ہے یہ چمن
نہ سیرِ گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے

مطلب: یہ کائنات تو آہ و فریاد سے لبریز ہے ایسی صورت میں نہ تو یہاں سیر گل کا تصور کیا جا سکتا ہے نا ہی مستقل رہائش گاہ کا ۔ مراد یہ ہے کہ انسان علائق دنیوی میں مست ہو کر عشق حقیقی سے بے پرواہ ہو جائے تو یہ اس کی سب سے بڑی بھول ہے ۔ اصل شے تو عشق حقیقی ہے جو منزل تک رسائی کے لیے ناگزیر ہے ۔

 
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بیکراں کے لیے

معانی: سفینہ: کشتی ۔ بحرِ بیکراں : کھلا سمندر جس کا کنارہ نظر نہ آئے ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے فرد کی ذمہ داریوں کو وسیع تر مفاد کے پیش نظر اس امر کی رہنمائی کی ہے کہ چھوٹی چھوٹی خواہشات میں الجھ کر زندگی کے بنیادی مقاصد سے روگردانی کرنا دانشمندی نہیں ۔ حقیقی مسئلہ تو منزل تک پہنچنے کا ہے ۔

 
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیے

مطلب: وہ لوگ جو ساری دنیا کی رہنمائی کے اہل تھے افسوسناک امر یہ ہے کہ آج خود کسی ایسے رہبر کے منتظر ہیں جو انھیں منزل تک پہنچا دے ۔

 
نگہ بلند سُخن دل نواز ، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

مطلب: یہ شعر بھی اس سے قبل کے شعر کا تسلسل ہے جس میں حقیقی رہنما کی صفات کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ اقبال کے نزدیک حقیقی رہنما وہ ہوتا ہے جو مسائل پر گہری نظر رکھتا ہو ، گفتگو دل میں اتر جانے والی ہو اور دل سوز و گداز سے بھرپور ہو ۔

 
ذرا سی بات تھی اندیشہَ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے

مطلب: یہ شعر بھی ایک طرح سے گذشتہ دو شعروں کے پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ یہی وہ نکات تھے جنہیں اہل عجم نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے حالانکہ اہل دانش کے لیے تو یہ سیدھی سادی سی باتیں ہیں ۔

 
مرے گلو میں ہے اک نغمہ جبرئیل آشوب
سنبھال کر جسے رکھا ہے لامکاں کے لیے


مطلب: نظم کے اس آخری شعر میں اقبال نے کہا ہے کہ میری آواز میں تو ایک ایسی لے مستور جسے میں نے مستقبل کے لیے محفوظ کر رکھا ہے ۔ اس لے میں ایسی خصوصیت ہے جو پیغمبر آخر الزماں کے لیے وحی لے کر آنے والا فرشتہ جبرئیل بھی سن کر تڑپ اٹھے ۔ مراد یہ ہے کہ شاعر کے سخن میں کمال موجود ہو تو وہ فرشتوں کو بھی تڑپا کر رکھ دیتا ہے