Please wait..

آزادیِ شمشیر کے اعلان پر

 
سوچا بھی ہے اے مردِ مسلماں کبھی تو نے
کیا چیز ہے فولاد کی شمشیرِ جگر دار

معانی: شمشیرِ جگر دار: نہ ٹوٹنے والی تلوار ۔
مطلب:1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے ہندی مسلمان کو بالکل نہتے کر دیا تھا ۔ 1935ء میں انہیں تلوار رکھنے کی اجازت ملی ۔ اس پر علامہ نے کہا کہ اے ہندوستانی مسلمان تو نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جس تلوار کی تمہیں آزادی ملی ہے لوہے کی وہ تیز کاٹ والی تلوار کیا ہے

 
اس بیت کا یہ مصرعہَ اول ہے کہ جس میں
پوشیدہ چلے آتے ہیں توحید کے اسرار

معانی: مصرعہ اول: شعر کا پہلا مصرع ۔
مطلب: اس شعر میں اور اس کے اگلے شعر میں بیت ، مصرع اول اور مصرع ثانی کی شاعرانہ اصلاحوں کے پس منظر میں شاعر نے اپنی بات اور بڑھائی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اس شعر کا پہلا مصرع ہے جس میں توحید کے بھید چھپے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔

 
ہے فکر مجھے مصرعِ ثانی کی زیادہ
اللہ کرے تجھ کو عطا فقر کی تلوار

معانی: فقر کی تلوار: مراد غیرت مند کردار ۔
مطلب: جس طرح کوئی شعر دو مصرعوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اسی طرح جو مضمون اقبال ادا کرنا چاہتے ہیں وہ ان دو شعروں میں پورا ہوتا ہے ۔ پہلے شعر میں اس نے مصرع اول کی بات کر کے لوہے کی جگردار تلوار کا ذکر کیا ہے اور دوسرے شعر میں انھوں نے فولاد کی تلوار کے مقابلے میں فقر کی تلوار کا بیان فرمایا ہے اور کہا ہے کہ جب تک تجھے فقر کی اسلامی تلوار عطا نہ ہو گی یہ لوہے کی تلوار بے کار ہے ۔ خدا کرے کہ تجھے فقیری کی تلوار بھی عطا ہو ۔

 
قبضے میں یہ تلوار بھی آ جائے تو مومن
یا خالد جانباز ہے یا حیدرِ کرار 

معانی: خالد جانباز: خالد بن ولید دورِ نبوی کے زبردست جنگجو ۔ حیدرِ کراّر: حضرت علی علیہ السلام
مطلب: اس شعر میں علامہ یہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمان کے پاس فولاد کی تلوار کے ساتھ ساتھ (لشکری قوت کے ساتھ ساتھ) فقر کی تلوار (درویشی کی طاقت) بھی آ جائے تو پھر مسلمان یا جان پر کھیل جانے والا حضرت خالد بن ولید بن جاتا ہے یا خیبر میں کامیابی حاصل کرنے وا الا شیرِ خدا حضرت امام علی بن جاتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ صرف فوجی طاقت اس وقت تک بے کار ہے جب تک کہ یہ دین اور ایمان کی طاقت نہ رکھتی ہو ۔ دین کے بغیر تلوار چنگیزیت بن جاتی ہے اور تلوار کے بغیر دین کا نفاذ ناممکن ہو جاتا ہے ۔