شمع
بزمِ جہاں میں ، میں بھی ہوں اے شمع! دردمند فریاد در گرہ صفتِ دانہَ سپند
معانی بزمِ جہاں : مراد دنیا ۔ فریاد و درگرہ: مراد ہر وقت فریاد پر تیار ۔ دانہَ سپند: وہ دانہ جسے آگ پر ڈالیں تو چٹخنے لگتا ہے ۔
مطلب: اس نظم میں علامہ اقبال شمع سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے شمع! تیری طرح میں بھی غم زدہ اور دکھیا ہوں ۔ میری کیفیت بھی ہرمل کے اس دانے کی مانند ہے جو آگ کی تپش سے چٹخنے کی آواز پیدا کرتا ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ میرا دل جب سوز غم سے بھڑک اٹھتا ہے تو اس میں سے درد انگیز نالے اٹھتے ہیں ۔
دی عشق نے حرارتِ سوزِ دروں تجھے اور گل فروشِ اشکِ شفق گوں کیا مجھے
معانی: سوزِ دروں : جذبہَ عشق کی گرمی ۔ گل فروشِ اشکِ شفق گوں : شفق کی طرح سرخ آنسووَں کے پھول بیچنے والا، یعنی محبوب سے دوری کے سبب خون کے آنسو رونے والا ۔
مطلب: جس طرح عشق نے تجھے داخلی کرب کے آگ میں جلنے پر مجبور کر دیا ہے بعینہ مجھے بھی خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دیا ہے ۔
ہو شمعِ بزمِ عیش کہ شمعِ مزار تو ہر حال اشکِ غم سے رہی ہم کنار تو
معانی: بزمِ عشق: مراد خوشیوں کی محفل ۔ ہمکنار رہنا: بغلگیر، ساتھ ساتھ رہنا ۔
مطلب: مجھے علم ہے کہ تو کسی عشرت کدے میں روشن ہو یا کسی مزار پر جلے دونوں صورتوں میں تیری آنکھ سے آنسو ٹپکتے رہتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ شمع خواہ خوشی کی محفل میں جلے یا کسی غم کدے میں اس کے پگھلنے سے بہر حال موم کے قطرے ٹپکتے رہتے ہیں ۔ اقبال نے انہی کو آنسووَں سے تعبیر کیا ہے ۔
یک بیں تری نظر صفتِ عاشقانِ راز مری نگاہ مایہَ آشوبِ امتیاز
معانی: یک بیں : مراد ہر جگہ ایک ہی طرح روشنی دینے والی ۔ عاشقانِ راز:بھید، حقیقت کے عاشق ۔ مایہَ آشوبِ امتیاز: تفریق پیدا کرنے کے فتنے کا سبب ۔
مطلب: اے شمع! جس طرح قدرت کے بھید جاننے والے عشاق ہر شے کو کسی جانب داری کے بغیر مساوی سطح پر دیکھتے ہیں تیری کیفیت بھی ان سے ملتی جلتی ہے ۔ جب کہ میں اشیاَ کے مابین فرق و امتیاز کا جائزہ لیتا ہوں ۔
کعبے میں ، بت کدے میں ہے یکساں تری ضیا میں امتیازِ دیر و حرم میں پھنسا ہوا
معانی:دَیر و حرم: مندر اور کعبہ، ہندو اور مسلمان ۔
مطلب: تیری روشنی تو خواہ کعبہ ہو یا بت خانہ، دونوں کو یکساں طور پر منور کرتی ہے جب کہ میری نظر دیر و حرم کے مابین جو فرق ہے اس کی مماثل ہے ۔
ہے شان آہ کی ترے دودِ سیاہ میں پوشیدہ کوئی دل ہے تری جلوہ گاہ میں
معانی: آہ کی شان: مراد آہ کی سی کیفیت ۔ دودِ سیاہ: کالا دھواں ۔ جلوہ گاہ: مراد روشنی کی جگہ ۔
مطلب: تیرے جلن سے جو دھواں اٹھتا ہے اس کی کیفیت قلب انسان سے برآمد ہونے والی آہ کی سی ہے ۔ لگتا ہے کہ تیرے اندر بھی انسان کی طرح کوئی دل چھپا ہوا ہے ۔
جلتی ہے تو کہ برقِ تجلی سے دور ہے بے درد تیرے سوز کو سمجھے کہ نور ہے
معانی: برقِ تجلی: جلوہ کی بجلی مراد محبوب حقیقی کا جلوہ ۔ سوز: جلنے کی حالت ۔
مطلب: شاید تو اس غم میں جل رہی ہے کہ تو روشنی کے حقیقی منبع سے دور ہے لیکن تیرے اس عمل کو بیدرد لوگ روشنی سے تعبیر کرتے ہیں ۔
تو جل رہی ہے اور تجھے کچھ خبر نہیں بینا ہے اور سوزِ دروں پر نظر نہیں
معانی: بینا: نظر والی ۔ سوزِ دروں : عشق کے سبب دل کی تپش ۔
مطلب: چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ تو جل رہی ہے تا ہم حیرت اس امر پر ہے کہ تجھے اپنے جلنے کا بھی کچھ پتہ نہیں ہے ۔ اس قدر چشم بینا رکھتے ہوئے بھی تو اپنی داخلی جلن سے آگاہ نہیں ۔
میں جوشِ اضطراب سے سیماب وار بھی آگاہِ اضطرابِ دل بے قرار بھی
معانی: سیماب وار: پارے کی طرح ۔
مطلب: اس کے برعکس میں اضطراب و بے چینی کے سبب پارے کی طرح تڑپ رہا ہوں ۔ اور اس اضطراب و بے چینی سے میرا دل پوری طرح آگاہ ہے ۔
تھا یہ بھی کوئی ناز کسی بے نیاز کا احساس دے دیا مجھے اپنے گداز کا
معانی: بے نیاز: یعنی محبوب حقیقی جو کسی کا محتاج نہیں ۔ گداز: پگھلنے یعنی عشق میں گھلنے کی حالت ۔
مطلب: شاید مجھے رب اعلیٰ نے جلنے اور پگھلنے کا احساس عطا فرما دیا ہے ۔
یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بے قرار خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار
معانی: خوابیدہ: سوئے ہوئے ۔ شرر: چنگاری ۔ آتش کدے: جمع آتش کدہ، آتش پرستوں کی عبادت گاہیں ۔
مطلب: مجھے اپنی ذات کی شناخت کا جو شعور عطا کیا گیا ہے بظاہر یہ ایک معلولی سی چنگاری کے مانند ہے تا ہم اس میں بے شمار ا آتش کدے پوشیدہ ہیں ۔
یہ امتیازِ رفعت و پستی اسی سے ہے گل میں مہک، شراب میں مستی اسی سے ہے
معانی: رفعت: بلندی ۔
مطلب: بلندی و پستی میں امتیاز کی خصوصیت اسی کے سبب پائی جاتی ہے ۔ آگہی کا یہی و ہ شعور ہے جس کے سبب پھولوں میں خوشبو اور شراب میں نشہ کا عنصر برقرار ہے ۔
بستان و بلبل و گل و بو ہے یہ آگہی اصلِ کشاکشِ من و تو ہے یہ آگہی
معانی: بستان: بوستان، باغ ۔ اصل: بنیاد ۔ کشاکش: کھینچا تانی ۔ من و تو: میں اور تو ۔
مطلب: یہی آگہی بلبل، پھول اور اس کی خوشبو کے علاوہ بندہ و آقا کے مابین فرق کا سبب بن جاتی ہے ۔
صبحِ ازل جو حُسن ہوا دلستانِ عشق آوازِ کن ہوئی تپش آموزِ جانِ عشق
معانی: دلستان: دل لینے، چھیننے والا ۔ صبحِ ازل: کائنات کے وجود میں آنے سے بھی پہلے کی صبح ۔ آوازِ کن: ہو جا کی آواز قرآنی آیت ہے جب خدا کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو فرماتا ہے ہو جا اور وہ پیدا ہو جاتی ہے ۔
مطلب: جب خالق کون و مکان نے کن کی صدا کے ساتھ کائنات کی تخلیق کی تو حسن عملاً عشق کا گرویدہ ہوا اور اسی کیفیت نے عاشق کے دل میں ایک تڑپ اور اضطراب پیدا کر دیا ۔
مجھ سے خبر نہ پوچھ حجابِ وجود کی شامِ فراق صبح تھی میری نمود کی
مطلب: خالق ارض و سما نے انسان کو پیدا کر کے اس کے وجود اور جسم کو ایک ایسے حصار میں ڈال دیا جس کے سبب وہ اپنی حقیقت اور وجود سے بے خبر اور بڑی حد تک بے نیاز ہو گیا ۔ چنانچہ یہی لمحہ تھا جب تخلیق کے ساتھ ہی حقیقت ازل سے وجود کے ہجر کا آغاز ہو گیا ۔
وہ دن گئے کہ قید سے میں آشنا نہ تھا زیبِ درختِ طُور مرا آشیانہ تھا
مطلب: بالفاظ دگر پہلے انسان ان قیود سے آزاد تھا جب کہ اب قدرت نے اس پر بیشتر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال کر اسے ایک محدود حصار میں بند کر دیا ہے ۔ اب وہ زمانہ ختم ہو گیا جب انسانی وجود کا مسکن کوہ طور کے ایک درخت پر تھا ۔ اس لمحے تو وہ کسی حجاب کے بغیر نور کبریائی کا نظارہ کیا کرتا تھا ۔
قیدی ہوں اور قفس کو چمن جانتا ہوں میں غربت کے غم کدے کو وطن جانتا ہوں میں
مطلب: اب تو صورت حال یہ ہے کہ انسان اپنے وجود میں ہی محصور ہو کر رہ گیا ہے ۔ اور المیہ یہ ہے کہ وہ اس قید خانے کو ہی ایک باغ تصور کر بیٹھا ہے ۔ اس کے علاوہ جس مقام پر وہ ایک اجنبی کی طرح بودوباش اختیار کیے ہوئے ہے اس کو اپنا وطن سمجھتا ہے ۔
یادِ وطن فسردگیِ بے سبب بنی شوقِ نظر کبھی، کبھی ذوقِ طلب بنی
معانی: فسردگی: افسردگی، اداسی ۔
مطلب: اب صورتحال یہ ہے کہ وہ اپنے حقیقی وطن کو یاد میں افسردہ و پریشان رہتا ہے ۔ اور اس خالق حقیقی کی طلب دل و نظر کو مضطرب رکھتی ہے جس سے کبھی اس کا براہ راست رابطہ تھا ۔
اے شمع! انتہائے فریبِ خیال دیکھ مسجودِ ساکنانِ فلک کا مآل دیکھ
معانی: فریب خیال: یعنی غلط فہمی ۔ مسجود: جسے سجدہ کیا جائے ۔ ساکنان : جمع ساکن، رہنے والے ۔ مآل: انجام ۔
مطلب: اقبال پھر سے شمع سے مکالمہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس پس منظر سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کس قدر فریب خوردہ ہے جو اپنے فانی وجود کو ہی ایک مستقل حقیقت سمجھ بیٹھا ہے حالانکہ ساکنان فلک کو سجدوں کا انجام بھی اس کے روبرو ہے ۔
مضموں فراق کا ہوں ، ثریا نشاں ہوں میں آہنگِ طبعِ ناظم کون و مکاں ہوں میں
معانی: فراق کا مضمون: مراد انسان جو اصل سے جدا ہے ۔ ثریا نشان: یعنی ثریا کی طرح بلند لیکن دور ۔ آہنگِ طبعِ ناظمِ کون و مکاں : دنیا کی نظم لکھنے والے یعنی تنظیم کرنے والے کی طبیعت کی لے ۔
مطلب: ہر چند کہ میرا مقام بہت بلند ہے پھر بھی ہجر کا ستایا ہوا ہوں ۔ پھر بھی خالق کون و مکاں کے مشیت سے ہم آہنگ ہوں ۔
باندھا مجھے جو اس نے تو چاہی مری نمود تحریر کر دیا سرِ دیوانِ ہست و بود
معانی: باندھا: یعنی مضمون پیدا کیا، انسان کو تخلیق کیا ۔ سرِ دیوان ہست و بود: کائنات کے دیوان کے شروع میں ۔
مطلب: اس نے مجھ پر جو پابندیاں عائد کیں غالباً ان سے مقصد یہی تھا کہ ان سے زندگی کے ارتقائی مراحل طے کروں اس کے سبب رب اعلیٰ نے مجھے حیات و ممات کا عنوان دیا ہے ۔
گوہر کو مشتِ خاک میں رہنا پسند ہے بندش اگرچہ سست ہے، مضموں بلند ہے
معانی: گوہر : موتی، روح ۔ مُشت خاک: مٹی کی مٹھی، انسانی جسم ۔
مطلب: یہ ایک حقیقت ابدی ہے کہ نایاب موتیوں کا مسکن بھی مٹی اور خاک کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا اس کے باوجود وہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے بلند مرتبہ رکھتے ہیں ۔
چشمِ غلط نگر کا یہ سارا قصور ہے عالم ظہور جلوہَ ذوق شعور ہے
مطلب: اب جو گہرائی میں اتر کر دیکھتا ہوں تو اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قصور میری بصارت اور بصیرت کا ہے جو حقائق کو ان کے صحیح منظر نامے میں دیکھنے سے گریزاں ہے ۔ جب کہ امر واقعہ اپنے شعور کی نمائش کا خواہاں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں افتراق و امتیاز کی خلیج وسعت پذیر ہو رہی ہے ۔
یہ سلسلہ زمان و مکاں کا کمند ہے طوقِ گلوئے حُسن تماشا پسند ہے
معانی: زمان و مکاں : کائنات ۔ کمند: رسی کا پھندا ۔ طوقِ گلوئے حسن: حسن کے گلے، گردن کا طوق ۔ تماشا پسند: دلچسپ چیزوں کو دیکھنے کا شوقین ۔
مطلب: زمان و مکان کا سلسلہ انسانی حیات کے گرد ایک حصار کے مانند ہے ۔
منزل کا اشتیاق ہے، گم کردہ راہ ہوں اے شمع! میں اسیرِ فریبِ نگاہ ہوں
معا نی: منزل: عالمِ بالا جو انسان کا اصل ٹھکاناہے ۔ گم کردہ راہ: راستہ بھٹکا ہوا ۔ فریبِ نگاہ: نظر کا دھوکا ۔
مطلب: ہر چند کہ اپنی راہ گم کر بیٹھا ہوں پھر بھی منزل تک رسائی میرا مطمع نظر ہے ۔ فریب نظر میں مبتلا ہونے سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ حقائق کا سامنا کروں ۔
صیاد آپ، حلقہَ دامِ ستم بھی آپ بامِ حرم بھی، طائرِ بامِ حرم بھی آپ
معانی: حلقہَ دامِ ستم: ظلم کے جال کا حلقہ ۔ بامِ حرم: کعبہ کی چھت ۔
مطلب: لیکن صورت یہ ہے کہ خود ہی صیاد بن چکا ہوں اور اسکے دام میں گرفتار بھی خود ہی ہوں ۔ کیا ستم ہے کہ خود کو حرم کی بلندی بھی سمجھتا ہوں اور اس پر ایستادہ پرندہ بھی ۔
میں حُسن ہوں کہ عشق سراپا گداز ہوں کھلتا نہیں کہ ناز ہوں میں یا نیاز ہوں
معانی: عشق سراپا گداز: ایسا عشق جو سارے جسم کو پگھلا دے ۔ کھلتا نہیں : واضح نہیں ہوتا ۔ ناز: مراد محبوب ۔ نیاز: عاجزی، مراد عشق ۔
مطلب: فی الواقع میں تو اس حقیقت سے بھی آگاہی نہیں رکھتا کہ حسن ہوں یا عشق کا گداز! مجھ پر تو یہ بھید بھی نہیں کھلتا کہ محبوب ہوں یا میری حیثیت عاشق کی ہے ۔
ہاں ، آشنائے لب ہو نہ رازِ کہن کہیں پھر چھڑ نہ جائے قصہَ دار و رسن کہیں
معانی: آشنائے لب ہونا: زبان پر آنا ۔ رازِ کہن: پرانا بھید، حقیقت ۔ چھڑ جانا: شروع ہونا ۔ قصہ دار و رسن: رسی باندھ کر پھانسی کے تختے پر چڑھانے کی کہانی، اشارہ ہے منصور حلاج کی طرف ۔
مطلب: چنانچہ میرے لیے یہ خدشہ بے جا نہیں کہ اپنی زبان پر وہی راز قدیم لے آوَں جس کا نتیجہ پھانسی کے پھندے کے سوا اور کچھ نہیں کہ سچ کا نتیجہ ہمیشہ تلخ ہی ہوتا ہے ۔