ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض
(۵)
درّاج کی پرواز میں ہے شوکتِ شاہیں حیرت میں ہے صیّاد یہ شاہیں ہے کہ درّاج
معانی: دراج: تیتر ۔ پرواز: شوکت شاہیں : شاہین کی جمع ۔ صیاد: شکاری ۔ شاہین: ایک سفید رنگ کا پرندہ جو کمزور پرندوں کا شکار کرتا ہے ۔
مطلب: اس شعر میں تیتر اور شاہین اور صیاد کی علامتوں میں کشمیری عوام کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کی بات کی گئی ہے ۔ وہ کشمیری جو صدیوں سے تیتر کی یعنی کمزور قوم کی غلامانہ زندگی بسر کر رہے ہیں وہ ہندووَں کے ظلم و استبداد کا شکار بنے ہوئے تھے اب ان میں آزادی کی تڑپ پیدا ہونے پر شاہین جیسی جراَت اور طاقت پیدا ہو گئی ہے ۔ کل تک جو شکاری کا شکار ہو رہے تھے آج اپنی ہمت، جرات اور عزم آزادی کی بنا پر شکاری کو پریشان کر رہے ہیں اور شکاری ان کی پرواز دیکھ کر اس شش و پنج میں ہے کہ یہ تیتر ہیں یا باز ہیں ۔ مراد ہے کہ 1930ء میں کشمیریوں نے ڈوگررہ حکمرانوں اور آج کے ہندووَں سے آزادی حاصل کرنے کی جو جرات مندانہ تحریک شروع کی اس کو دیکھ کر حکمران حیرت زدہ ر گئے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ کل تک جو قوم کمزور اور غلام تھی آج اس میں آزاد ہونے کی تڑپ، ہمت اور جرات کہاں سے آ گئی ہے ۔
ہر قوم کے افکار میں پیدا ہے تلاطم مشرق میں ہے فردائے قیامت کی نمود آج
معانی: افکار: فکر کی جمع، سوچ ۔ تلاطم: دریا یا سمندر میں طغیانی پیدا ہونا، لہروں کا جوش میں ایک دوسرے سے ٹکرانا، تھپیڑے کھانا ۔ فردائے قیامت: کل آنے والی قیامت ۔ نمود: ظہور ۔
مطلب: یہ صرف کشمیریوں ہی کی بات نہیں ، سارے مشرق میں اہل مغرب کی صدیوں کی غلامی کے خلاف زوردار تحریکیں پیدا ہو چکی ہیں اور مختلف ممالک کے غلامی کے سمندروں میں طغیانی آ چکی ہے جن کی لہریں آزاد ہونے کے لیے ابھر رہی ہیں ۔ آج سارے مشرق میں آنے والی قیامت کا ظہور ہو رہا ہے ۔ مراد ہے جس طرح قیامت کے روز مردے اپنی قبروں میں جاگ اٹھیں گے اسی طرح مشرقی اقوام بھی جو صدیوں سے غفلت کی نیند سوئی ہوئی تھیں اور اپنی غلامی کی زندگی پر رضا مند ہو کر مردہ ہو چکی تھیں آج جاگ رہی ہیں اور اپنی آزادی کے لیے اپنے آقاؤں سے ٹکرانے کا ان میں جذبہ پیدا ہو چکا ہے ۔
فطرت کے تقاضوں سے ہُوا حشر پہ مجبور وہ مُردہ کہ تھا بانگِ سرافیل کا محتاج
معانی: فطرت: قدرت، سرشت، خلقت ۔ تقاضاؤں : تقاضا کی جمع، اصرار، طلب، خواہش، ضرورت ۔ حشر: وہ دن جب مردے جی اٹھیں گے اور حساب کتاب دینے اور جزاوسزا کے لیے ایک جگہ جمع ہوں گے، قیامت کا دن ۔ بانگ سرافیل:اسرافیل فرشتے کی آواز قیامت کے دن اسرافیل صور نامی ایک آلہ میں آواز پیدا کرے گا جس کو سن کو تمام مردے اپنی اپنی قبروں اور جگہوں سے زندہ ہو کر میدان حشر میں جمع ہو جائیں گے ۔ محتاج: ضرورت مند ۔
مطلب: قدرت کی طلب اور آدمی کی اپنی خلقت اور سرشت کا اصرار یہ ہے کہ ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کا غلام نہ ہو ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کتا کتے کے سامنے سر خم نہیں کرتا ۔ لڑ بھڑ جاتا ہے آدمی تو اشرف المخلوق ہے وہ کیوں ایک دوسرے کے سامنے سر خم کرے ۔ آزاد رہنا اس کا پیدائشی حق ہے ۔ آج مشرق کے غلام لوگ اس پیدائشی حق کو حاصل کرنے کے لیے مغرب کے آقاؤں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ ان غلاموں کی مثال تو ان مردوں کی سی ہو گئی تھی جن کو قیامت کے دن سرافیل فرشتے کے صور پھونکنے کی آواز بھی شاید نہ اٹھا سکتی لیکن آج وہ صور کی اس آواز سے پہلے ہی حشر کی سی زندگی کا نمونہ پیش کر چکے ہیں ۔ مراد ہے کہ مشرق کا غلام وہ اپنی غفلت کی نیند سے بیدار ہو چکا ہے اور اپنی غلامی کی مردہ حالت کو تبدیل کر کے پھر سے آزادی کی زندگی کے حصول کے لیے تڑپ رہا ہے اور اس کے لیے کوشش کر رہا ہے ۔
(۶)
رندوں کو بھی معلوم ہیں صوفی کے کمالات ہر چند کہ مشہور نہیں ان کے کرامات
معانی: رند: شرابی، دنیادار، آزاد منش ۔ کمالات: کمال کی جمع، کسی فن یا ہنر میں کمال حاصل کرنا ۔ کرامات : کرامت کی جمع، کسی بزرگ سے ایسے فعل کا سرزد ہونا جو فطرت اور عقل سے ماورا ہو ۔
مطلب: وہ رند جو صوفی کی ضد ہے اور جو آزاد منش اور شرابی ہے وہ بھی جانتا ہے کہ ایک صوفی اپنے اندر فن تصوف کے کون کون سے کمالات رکھتا ہے چاہے وہ اس کی کرامت سے واقف نہ بھی ہو ۔ اور اسے یہ معلوم نہ بھی ہو کہ اس عقل سے ماورا اور فطرت سے فوق کون کون سے فعل سرزد ہوتے ہیں ۔
خود گیری و خودداری و گلبانگ اَنا الحق آزاد ہو سالک تو ہیں یہ اس کے مقامات
معانی: خودگیر: ہر بات میں خود کفیل ۔ خودداری: اپنی عزت خود بحال رکھنے کا عمل، متانت، سنجیدگی، عزت نفس ۔ گلبانگ: خوش گوار آواز ۔ انا الحق: میں حق ہوں ، ایک صوفی منصور نے یہ کہا تھا ۔ سالک: سلوک طے کرنے والا، درویش، ولی ۔ مقامات: مقام کی جمع، تصوف کے راستے کی منزلیں ۔
مطلب: بے شک کوئی صوفی اپنے اندر تصوف و ولایت کے فن کے بہت کمالات رکھتا ہو لیکن اگر وہ غلام ہے تو یہ کمالات بے فائدہ ہیں کیونکہ غلام ہوتے ہوئے اس کا اپنا وجود ، اس کا اپنا ضمیر اور اس کی اپنی مرضی اس کے آقا کی ہو جاتی ہے اگر سالک آزاد ہے تو کمالات کرامات کے نہ ہوتے ہوئے وہ کسی کا محتاج نہیں ہو گا ۔ ہر ایک سے بے نیاز صرف اللہ کا نیاز مند ہو گا ۔ عزت نفس کا حامل ہو گا ۔ کسی کے آگے نہ جھکے گا، نہ کسی کے آگے دست سوال دراز کرے گا ۔ نہ دوسروں کی روزی پر پلے گا ۔ وہ میں حق ہوں کا نعرہ بلند کرے گا اور پکارے گا کہ میرا وجود فنا ہو کر حق باقی رہ گیا ہے ۔ یہ وہ نعرہ تھا جو منصور نامی ایک صوفی نے اس وقت لگایا تھا جب وہ فنا اور بقا کے اس مقام پر پہنچا تھا جہاں وہ خود فانی ہو کر بحق باقی رہ گیا تھا ۔ سالک کے راستے کی منزلوں یا مقامات میں سے ملا ضیغم کی زبان سے علامہ نے صرف تین کا ذکر کیا ہے ۔ اس کے علاوہ اور مقامات بھی ہوتے ہیں ۔
محکوم ہو سالک تو یہی اس کا ہمہ اُوست خود مُردہ و خود مرقد و خود مرگِ مفاجات
معانی: محکوم: غلام، سالک: سلوک یا تصوف کی منزلیں طے کرنے والا، ولی ، درویش ۔ ہمہ اوست: سب کچھ وہی ہے ۔ مرقد: قبر ۔ مرگ مفاجات: ناگہانی موت ۔ مردہ: مرا ہوا، بے حس ۔
مطلب: ہمہ اوست کا عقیدہ کہ سب کچھ وہی ہے مراد ہے سب ذرات کائنات اوراشیائے کائنات میں اللہ کی صفات جاری و ساری ہیں اور اس عمل کی بنا پر ان کو وجود دکھائی دیتا ہے اگر تو یہ آزاد کا عقیدہ ہے تو یہ اس کے اور مخلوق خدا کے لیے فائدہ والا ہے ۔ اس عقیدے کی بنا پر لوگ خود کو مقام فنا پر سمجھیں گے اور اللہ کو باقی خیال کریں گے جس کی بنا پر وہ سوائے اللہ کے کسی کے آگے نہیں جھکیں گے کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کریں گے ۔ کسی کے محتاج نہیں ہوں گے لیکن یہی عقیدہ اگر کسی غلام قوم کے صوفی کا ہو تو یہ اسے اس طرح کی خودی ، خودداری اور عزت نفس ختم ہو جاتی ہے اور وہ ایک ایسے شخص کی مانند ہو جاتا ہے جس پر ناگہانی موت آئی ہے وہ خود اپنی موت کا سبب بن جاتا ہے ۔ یہ موت اس کے جسم کی میت نہیں ہوتی اس کی شخصیت کی موت ہوتی ہے ۔ اس موت کے بعد یہی شخصیت مردہ اس کی قبر بن جاتی ہے اور وہ اس میں مردوں کی سی بے بس زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔