Please wait..

ستارہ

 
قمر کا خوف کہ ہے خطرہَ سحر تجھ کو
مآلِ حُسن کی کیا مل گئی خبر تجھ کو

معانی: قمر: چاند، خطرہَ سحر: صبح کا اندیشہ، ڈر ۔ مآل: انجام ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال کا بنیادی تصور تغیر و انقلاب کے علاوہ مسئلہ جبر و قدر کی نشاندہی سے متعلق بھی ہے ۔ چنانچہ وہ ستارہ سے ہم کلام ہوتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے ستارے! مجھے اتنا بتا دے کہ کیا تو چاند کی روشنی سے خوفزدہ ہے یا پھر تجھے صبح ہونے کا خطرہ ہے کہ چاند کی روشنی میں تیری روشنی زائل ہو کر رہ جائے گی ۔ اسی طرح صبحدم سورج کے طلوع ہونے کے سبب بھی تجھے کم وبیش اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اس کے علاوہ کہیں ایسا تو نہیں کہ تجھے اس حقیقت کا پتہ چل گیا ہے کہ حسن کا انجام آخر کیا ہوتا ہے ۔ مراد یہ کہ ستارہ میں بھی ایک حسن ہوتا ہے اور زوال بالاخر حسن کا مقدر ہے سو اسی پس منظر میں یہ بات یہاں کی گئی ہے ۔

 
متاعِ نور کے لٹ جانے کا ہے ڈر تجھ کو
ہے کیا ہراسِ فنا صورتِ شرر تجھ کو 

معانی: لٹ جانا: لوٹا جانا ۔
مطلب: یا پھر ایسا تو نہیں کہ تجھے اپنے نور کی دولت کے لٹ جانے کا خطرہ ہے یا پھر یہ خیال تجھے کھائے جا رہا ہے کہ چنگاری کی مانند لمحے بھر میں اپنی روشنی سے محروم ہو جائے گا ۔

 
ز میں سے دُور دیا آسماں نے گھر تجھ کو
مثالِ ماہ اُڑھائی قبائے زر تجھ کو

معانی: مثالِ ماہ: چاند کی طرح ۔ اُڑھائی: پہنائی ۔ قبائے زر: سونے کی قبا ۔
مطلب: اس انداز سے تجھے خوفزدہ تو نہیں ہونا چاہیے کہ قدرت نے تجھے سطح زمین سے کافی بلندی پر گھر عطا کیا ہے اور چاند جیسی روشنی بھی بخشی ہے ۔

 
غضب ہے پھر تری ننھی سی جان ڈرتی ہے
تمام رات تری کانپتے گزرتی ہے

معانی: غضب ہے: کتنی بری بات ہے ۔
مطلب: اس کے باوجود حیرت یہ ہے کہ تجھ پر خوف طاری رہتا ہے اور تمام شب تو کانپتا رہتا ہے

 
چمکنے والے مسافر عجب یہ بستی ہے
جو اَوج ایک کا ہے دوسرے کی پستی ہے

معانی: مسافر: ستارے کو چلتے رہنے کی وجہ سے مسافر کہا ۔ اوج: بلندی ۔
مطلب: اے ستارہ تیری روشنی بجا! لیکن اس حقیقت کو فراموش نہ کر کہ یہ کائنات عجیب و غریب شے ہے ۔ یہاں کی کیفیت تو یہ ہے کہ ایک شے کو عروج حاصل ہوا تو زوال دوسری شے کا مقدر بن گیا ۔

 
اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اک ولادتِ مہر
فنا کی نیند مئے زندگی کی مستی ہے

معانی: اجل: موت ۔ ولادتِ مہر: مراد سورج کا طلوع ہونا ۔ مئے زندگی: زندگی کی شراب ۔
مطلب: اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ سورج کے طلوع ہوتے ہی لاکھوں ستارے اس کی تیز روشنی کے سبب ناپید ہو جاتے ہیں ۔ یوں سمجھ لے کہ جسے ہم فنا کے نام سے تعبیر کرتے ہیں وہ دراصل زندگی کا ہی ایک دوسرا رخ ہے ۔

 
وداعِ غنچہ میں ہے رازِ آفرینشِ گُل
عدم عدم ہے کہ آئینہ دارِ ہستی ہے

معانی: وداعِ غنچہ: مراد کلی کے کھلنے کا عمل ۔ آفرینشِ گل: مراد پھول بننا ۔ عدم: فنا، نیستی ۔ آئینہ دارِ ہستی: زندگی کا مظہر، دکھانے والا ۔
مطلب: غنچہ کھل کر اپنی ہیءت کھو بیٹھتا ہے اور بالاخر ایک شگفتہ پھول بن جاتا ہے ۔ بالفاظ دگر غنچے کی موت عملاً پھول کی زندگی بن جاتی ہے ۔ چنانچہ اس ساری صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ راز آشکار ہو کر سامنے آئے گا کہ ہم جسے موت کا نام دیتے ہیں وہ عملاً موت نہیں ہے اس کے برعکس زندگی کے اظہار کا نام ہے ۔

 
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

معانی: قدرت کا کارخانہ: مراد قدرت کا نظام ۔ ثبات: قرار، ٹکے رہنا ۔ تغیر: تبدیلی، بدلتے رہنے کی حالت ۔
مطلب: سو اے ستارے! یہ جان لے کہ پوری کائنات میں کسی مرحلے پر بھی سکون و اطمینان کا حصول ممکن نہیں ۔ ہاں اگر کسی چیز کو استقلال ہے تو اس کا نام تغیر اور تبدیلی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ مراد یہ ہے کہ اس کائنات کی بنیادی خصوصیت ہمہ وقت تغیر و انقلاب ہے ۔ اس نوع کی تبدیلیاں فطرت کے مظاہر کا بنیادی جزو ہیں ۔