Please wait..

اِنتداب

 
کہاں فرشتہَ تہذیب کی ضرورت ہے
نہیں زمانہَ حاضر کو اس میں دُشواری

معانی: انتداب: نگہداری یا قائم مقامی ، اصلاح میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک حکومت کسی ملک کی انتظامی اصلاح کے پردے میں اس پر قبضہ جما لے اور لوگوں کو یہ تاثر د ے کہ ہم تمہیں تہذیب سکھانے آئے ہیں جیسا کی یورپ کی قوموں نے ایشیا ، افریقہ اور دوسرے ملکوں پر قبضہ جمانے کے لیے کیا ہے، آج اس کی باگ ڈور امریکہ کے ہاتھ میں جو حجاز مقدس پر قبضہ جما نے کی غرض سے بہت کچھ کر رہا ہے ۔
مطلب: یہ فیصلہ کرنا کہ تہذیب کے فرشتے کی کس ملک اور قوم کو ضرورت ہے تا کہ اسے مہذب بنایا جا سکے ۔ زمانہ حال میں جب کہ علوم و فنون ترقی کے اوج پر ہیں فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے لیکن یورپی قوموں نے کمزور قوموں کو فتح کرنے کے لیے تہذیب کا جو بہانہ بنایا ہے وہ بالکل غیر فطری اور غلط ہے ۔

 
جہاں قمار نہیں ، زن تنک لباس نہیں
جہاں حرام بتاتے ہیں شغلِ مے خواری

معانی: قمار: جوا ۔ زن: عورت ۔ تنک لباس: کم لباسی یا عریاں لباسی ۔ شغل مے خواری: شراب پینے کا شغل ۔
مطلب: اہل مغرب نے تہذیب کے نام پر کمزور ممالک کو فتح کرنے کے لیے جو فیصلہ دیا ہے وہ سراسر فطرت اور حقائق کے خلاف ہے ۔ وہ ان ملکوں میں تہذیب لے جانا چاہتے ہیں جو پہلے ہی مہذب ہیں لیکن یورپی اقوام کا اصل مقصد تو مغربی تہذیب کو لے جا کر ان ممالک کے باشندوں کو حیوان بنانا ہے ۔ اس شعر میں اور اس سے اگلے دو شعروں میں علامہ نے اہل مغرب کی اسی بدنیتی کے پس منظر میں یہ کہا ہے کہ وہ تہذیب ان ملکوں میں پھیلانا چاہتے ہیں جہاں کے لوگ ان کی طرح جوا کھیلنے والے نہیں ہیں اور جہاں کی عورتیں عریاں لباسی کی وجہ سے بے حیا نہیں ہیں اور جہاں کے لوگ اہل یورپ کی طرح شراب پینے کو حلال نہیں بلکہ حرام سمجھتے ہیں ۔

 
بدن میں گرچہ ہے اک روحِ ناشکیب و عمیق
طریقہَ اب و جد سے نہیں ہے بیزاری

معانی: ناشکیب: بے صبر ۔ عمیق: گہری ۔ طریقہ اب و جد: باپ دادا کا طریقہ ۔ بیزاری: اکتاہٹ ۔
مطلب : اہل مغرب انتداب (ملکوں کی انتظامی اور تہذیبی اصلاح) کے بہانے ایسے لوگوں میں اپنی لادین اور بے حیا تہذیب کو پھیلانا چاہتے ہیں جن کے جسموں میں گہری اور عشق کی بنا پر بے صبر روحیں موجود ہیں اور جو اپنے باپ دادا کے طریقوں سے اکتائے ہوئے نہیں ہیں بلکہ اپنی پرانی انسانی اقدار پر قائم ہیں ۔ وہ اقدار جن کی وجہ سے وہ ابھی تک انسان ہیں یورپ والوں کی طرح حیوان نہیں ہوئے ۔

 
جسور و زیرک و پُردم ہے بچہَ بدوی
نہیں ہے فیضِ مکاتب کا چشمہَ جاری

معانی:جسور: بہادر ۔ زیرک: دانا، عقل مند ۔ پردم: سانس سے پر یعنی توانا اور طاقتور ۔ بچہ بدوی: عرب کے صحراؤں میں رہنے والوں کا بچہ ۔ فیض مکاتیب: درسگاہوں کا فیض ۔ چشمہ جاری: بہتا ہوا چشمہ ۔
مطلب: ذرا عرب کے بدووَں کے بچوں کو دیکھیں کہ وہ بہادر بھی ہوتے ہیں اور دانا و توانا بھی ۔ یہ محض اس وجہ سے ہے کہ وہاں مغربی طرز کے غیر انسانی اقدار پھیلانے والے مدرسوں کے فیض کا پانی جاری نہیں ہوا ہے ۔ اگر انتداب کے بہانے یورپ والے وہاں بھی اپنے تعلیمی مدارس قائم کر دیں گے تو عربوں کے بچے بھی بہادری، دانائی اور توانائی سے خالی ہو کر اہل مغرب کی طرح بے حیا، جوا باز اور مے خوار بن جائیں گے ۔

 
نظرورانِ فرنگی کا ہے یہی فتویٰ
وہ سرزمیں مدنیت سے ہے ابھی عاری 

معانی: نظروران فرنگی: اہل مغرب کے دانشور ۔ فتویٰ: فیصلہ ۔ مدنیت: تہذیب و تمدن ۔ عاری: خالی ۔
مطلب: جن ملکوں میں مذکورہ بالا شعروں میں بتائی گئی انسان اقدار کی باتیں موجود ہیں اہل مغرب یا یورپی دانشوروں کا فیصلہ ہے کہ ان ملکوں کی سرزمین تہذیب و تمدن سے خالی ہے اور ہم ان کو تہذیب و تمدن سکھانے کے لیے ان کی انتظامی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں ۔